نصرت جاوید
گزشتہ کئی برسوں سے ہم کوئی ’اچھی خبر‘ سننے کو بے چین تھے۔ ایسی خبر جو ہمیں بطور پاکستانی فخر محسوس کرنے کا موقع فراہم کرے۔ اولمپک گیمز میں میاں چنوں سے ابھرے ارشد ندیم نے نیزہ پھینک کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ سونے کا تمغہ جیت کر وطن لوٹا۔ اس کی جیت نے ہمیں یاد دلایا کہ جیولن تھرو یا نیزہ اچھالنا بھی عالمی سطح پر ایک اہم کھیل تصور ہوتا ہے اور پاکستان اس کھیل میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے قابل ہے۔ اس سے قبل ہاکی ہی وہ واحد گیم رہی ہے جو کم از کم میری جوانی میں اولمپک مقابلوں میں حصہ لینے کی اہل شمار ہوتی تھی۔ اس کے کئی کھلاڑیوں کو ہم اپنا ہیرو سمجھتے ۔ وہ اپنے دور کے سلیبریٹی تھے۔
ارشد ندیم نے 92.97میٹر تک نشانہ اچھال کر نیا ریکارڈ قائم کردیا تو اجتماعی طورپر بطورپاکستانی خوش ہونے کے بجائے اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے نے موصوف کی کامیابی کو ’اپنی‘ جیت ثابت کرنے کی کوشش شروع کردی۔ اس ضمن میں پہل لینے کا جو مقابلہ ہوا اس میں سوشل میڈیا پر چھائے عاشقانِ عمران خان بازی لے گئے۔ 92کا ہندسہ اس تناظر میں ان کے بہت کام آیا کیونکہ ان کے محبوب قائد کی کپتانی میں پاکستان نے کرکٹ کے ورلڈ کپ کا 1992ء والا فائنل جیتا تھا۔ محض 92کے ہندسے کی بنیاد پر جو کہانی گھڑی گئی وہ بچگانہ سنائی دینے کے باوجود سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوئی۔
92کے ہندسے سے جی کو خوش کرنے والی کہانیوں سے کہیں زیادہ مگر ایک تخلیقی کہانی نے مجھے طویل عرصے کے بعد قہقہے لگانے کو مجبور کردیا۔ ایک صاحب جن کا نام لکھنا مناسب نہیں سمجھتا غالباً افسانہ نویسی میں نام کمانا چاہتے ہیں۔ فیس بک پر انھوں نے ایک کہانی اپنی دانست میں حقیقت پسندانہ انداز میں لکھی۔ ان کا اندازِ تحریر پڑھنے والوں کے لیے کسی اخبار کے لیے ہوئی رپورٹنگ محسوس ہورہا تھا۔
بہرحال ’رپورٹ‘ یہ ہوا کہ حتمی مقابلے سے قبل آئی رات ارشد ندیم بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ غالباً مقابلے کے خوف سے ان کا دایاں ہاتھ شدید درد محسوس کرنے لگا۔ درد حد سے بڑھا تو ہاتھ کی دو انگلیاں سن ہوگئیں۔ پریشانی کے عالم میں ارشد ندیم کی آنکھ لگ گئی۔ نیند کے دوران مگر روشنی کے ہالے نے انھیں چونکا دیا۔ جس ہالے نے انھیں محصور کردیا اس میں سے کرکٹ کے کرشمہ ساز کھلاڑی سے پاکستان کے وزیر اعظم کے منصب تک پہنچے عمران خان برآمد ہوئے۔ انھوں نے ارشد ندیم کے دائیں کندھے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا۔اُن کے چھوتے ہی ارشد ندیم کی آنکھ کھل گئی۔ ان کے ہاتھ کا درد ختم ہوچکا تھا۔ اس کے بعد وہ چین کی نیند سوگئے۔ صبح اٹھے۔ میدان میں گئے اور نیزہ پھینک کر نہ صرف پاکستان کے لیے طلائی تمغہ حاصل کیا بلکہ ایک نیا ورلڈ ریکارڈبھی قائم کردیا جس میں 92کا ہندسہ نمایاں تھا۔ جو کہانی ’رپورٹ‘ ہوئی تھی اسے میرے دیکھنے تک تین ہزار سے زیادہ لوگ پڑھ چکے تھے۔ اسے کافی تعداد میں لائیکس اور شیئرز بھی مل چکے تھے۔
عاشقانِ عمران خان کی جانب سے ارشد ندیم کی کامیابی کو ’اپنی‘ جیت ثابت کرنے کی کوشش کافی حد تک بچگانہ اور ایک حوالے سے معصوم بھی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رانا مشہود مگر خوشامد کا نیا ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ ایک وڈیو کے ذریعے انھوں نے ہم سب کو یہ دکھایا کہ کہ وزیر اعظم پاکستان نے ان کے ہمراہ بیٹھ کر ارشد ندیم کی حمتی کاوش کو بہت اشتیاق سے دیکھا تھا۔ ارشد کا پھینکا نیزہ جب 92میٹر کی حد کراس کرگیا تو وزیر اعظم فرطِ جذبات سے کھڑے ہوگئے۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بلند کرکے پنجابی انداز میں ’ہٹ کے بدھن‘ والے جشن کا پیغام دیا۔ رانا صاحب نے مگر ان کے ساتھ بھنگڑا ڈالنے کے بجائے وزیر اعظم کو اطلاع دی کہ ارشد ندیم کی کامیابی شہباز صاحب کے ’وژن‘ کی کامیابی ہے۔
1990ء کی دہائی سے شہباز صاحب کے ’وژن‘ کا بطور متحرک رپورٹر کئی برسوں تک مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے ان کے ’وژن‘ کو ہمیشہ اوور ہیڈ برجوں،انڈر پاس سڑکوں اور میٹرو بسوں کی تعمیر پر کامل توجہ دیتا تصور کیا ہے۔ میرے علم میں یہ’خبر‘ کبھی نہیں آئی کہ پاکستان کو نیزہ اچھالنے کے کھیل میں طلائی تمغہ دلانا بھی ان کا دیرینہ مشن رہا ہے۔ بہرحال رانا مشہود اگر یہ سوچتے ہیں تو قربِ دربار کی وجہ سے مجھ سے کہیں زیادہ باخبر ہوں گے۔ ربّ کریم انھیں خوش رکھے اور ان کی بدولت ہمیں علم ہوتا رہے کہ شہباز شریف صاحب کے ’وژن‘ میں کون سے دیگر شعبوں میں عالمی سطح پر کامیابی حاصل کرنے کے خواب بھی شامل ہیں۔
معجزوں اور وژن پر بنائی داستانوں سے قطع نظرسرکار سے اکتائے افراد کی بے پناہ اکثریت سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی اٹھاتی رہے کہ ارشد ندیم کی کامیابی میں ہماری ریاست وحکومت نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ ایمان داری کی بات ہے کہ ابتداً میرے ذہن میں بھی یہ سوال ابھرتا رہا۔ تحقیق کے عادی عمر چیمہ کا شکر گزار ہوں جنھوں نے اپنے وی لاگ کے ذریعے آگاہ کیا کہ ارشد ندیم کو ریاستی سرپرستی گزشتہ کئی برسوں سے میسر رہی تھی۔ ان کی صلاحیتوں کو بروقت جان لیا گیا۔ انھیں جان لینے کے بعد تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اس کی خاطر وہ سرکاری خرچ پر جنوبی افریقہ بھی بھیجے گئے۔ اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ انھیں ایک حادثے کی وجہ سے پیچیدہ آپریشن درکار تھا۔ وہ میسر نہ ہوتا تو ارشد نیزہ پھینکنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے۔ حکومت ہی نے اس آپریشن کے لیے ایک بہترین ڈاکٹر تلاش کیا اور ارشد ندیم کے علاج کے تمام تر اخراجات برداشت کیے۔
عمر چیمہ کے بعد حامد میر نے چند ٹویٹس کے ذریعے آگاہ کیا کہ عمران حکومت کے دوران سرکاری اداروں سے کھلاڑیوں کی برطرفی شروع ہوگئی تھی۔ ارشد ندیم بھی کھلاڑی کے کوٹے کی بنیاد پر لیسکو کے ملازم ہونے کی وجہ سے اس کی زد میں آئے۔ اس کے خلاف آواز بلند ہوئی تو اگست2022ء میں ارشد کی ملازمت بحال کردی گئی۔ ڈان اخبار نے بھی چند اہم واقعات رپورٹ کیے ہیں جن کے مطابق ارشد کو کھیلوں کی سرکاری تنظیموں کی جانب سے مناسب سرپرستی میسر رہی ہے۔
ڈان اخبار،حامد میر اور عمر چیمہ نے جو رپورٹ کیا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے عرض گزارنا چاہتا ہوں کہ منو بھائی کے مطابق ’ابھی قیامت نہیں آئی‘۔ ہمارے سرکاری اداروں اور تنظیموں میں بدترین حالات کے باوجود اتنا دم خم باقی رہ گیا ہے کہ وہ صلاحیت سے مالا مال کسی کھلاڑی کی مناسب حد تک سرپرستی کرسکیں۔ بطور صحافی اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے سوال یہ اٹھانا چاہتا ہوں کہ ہم اپنی ’صحافت‘ کا کتنے فی صد حصہ وطن عزیز میں کھیلوں کی سرپرستی اور فروغ پر توجہ دینے میں صرف کرتے ہیں۔ ان دنوں تو ہر دوسرایوٹیوب چینل فقط سپریم کورٹ کے ذکر تک محدود ہوچکا ہے۔ وہاں کی کہانیاں ختم ہوئیں تو کوئی اور چوندا چوندا موضوع تلاش کرلیں گے۔ ارشد ندیم جیسے باصلاحیت نوجوانوں کی بدولت کوئی بڑی کہانی بن جائے تو ہم وقتی طورپر کھیلوں کو سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی دہائی مچانا شروع ہوجاتے ہیں۔