اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کا کام تقریریں کرنا نہیں، پارلیمنٹ جو قانون بنائے گی عدالتوں کو اسی کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ رانا ثنا نے کہا کہ قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے‘ عدالتیں آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی پابند ہیں۔ پورے ملک میں ایسا کوئی سپورٹس کمپلیکس نہیں جہاں انٹرنیشنل لیول کی سہولتیں موجود ہوں‘ صوبائی سطح پر بھی ایسی اکیڈیمز ہونی چاہئیں جہاں بین الاقوامی معیار کی کوچنگ اور سہولتیں حاصل ہوں۔ رانا ثناء نے کہا کہ جب لوگ ہر طرف سے فارغ ہو جاتے ہیں تو بورڈ اور فیڈریشن میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ فیڈریشن اور بورڈ میں لوگ آرام فرما رہے ہیں‘ انہیں کام سے کوئی غرض نہیں۔ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز سے پوچھنا چاہئے کہ انٹرنیٹ سلو کیوں ہے؟۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے ایکس پر اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’’عزت مآب جسٹس سید منصور علی شاہ نے فرمایا کہ ’’عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد لازمی آئینی تقاضا ہے‘ انتظامیہ کے پاس ان فیصلوں پر عمل کرنے کے سوا کوئی چوائس نہیں‘ اس طرف چل پڑے تو آئینی توازن بگڑ جائے گا۔ عالی مرتبت جج صاحب سے سو فیصد اتفاق کرتے ہوئے صرف اتنی رہنمائی مطلوب ہے کہ کیا عدالتی فیصلوں کا آئین و قانون کے مطابق ہونا بھی آئینی تقاضا ہے یا نہیں؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیا عدلیہ کے پاس یہ چوائس موجود ہے کہ وہ آئین کے واضح اور غیر مبہم آرٹیکلز کی نفی کرتے ہوئے اپنی مرضی کا آئین لکھ لے؟ اور کیا اگر عدالت اس طرح کے فیصلوں کی طرف چل نکلے تو ’’آئینی توازن‘‘ بگڑے گا یا نہیں؟۔