سپریم کورٹ نے بھٹوریفرنس کیس کی سماعت کے دوران شکایت کنندہ احمد رضا قصوری کو نوٹس جاری کردیا۔

چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمی کے گیارہ رکنی بینچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے حکومتی وکیل بابراعوان نے کہا کہ صدر مملکت نے ریفرنس میں ریلیف نہیں مانگا بلکہ صرف نظرثانی کی درخواست کی گئی ہے جس پر چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے ریمارکس دیئے کہ ہم پہلے ہی رائے دے چکے ہیں کہ کیس کی تحقیقات شفاف نہیں تھیں، عدالتوں کا اپنا دائرہ اختیار ہوتا ہے، حکومتی وکیل بتائیں کہ اب وہ عدالت سے کیا رائے چاہتے ہیں اور یہ کہ ہم اس حوالے سے کہاں تک جاسکتے ہیں؟ بابراعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بھٹوکے عدالتی قتل کی سازش کاانکشاف فاروق بیدارنے کیا تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انکشاف کرنے والے اس وقت کیوں نہیں بولے؟ آج ہیرو بننے والوں کوبروقت ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ سماعت کے دوران بابر اعوان نے مقدمے کے ریکارڈ سے متعلق مختلف حوالے بھی پیش کئے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس میں ہر جگہ مقدمہ کھولنے کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں،اگر آپ کی رائے مان لی جائے توذوالفقار بھٹو کے خلاف شکایت کنندہ کو بھی نوٹس جاری کیا جاسکتا ہے جبکہ کیس کا دوبارہ جائزہ لینے یا نہ لینے کے حوالے سے فیصلہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کسی کے خلاف نا انصافی نہیں کرنا چاہتی، اس دوران عدالت نے فریقین اور عدالتی معاونین سے رائے طلب کی جس پر سب نے رائے دی کہ شکایت کنندہ کو سنا جائے جس پر عدالت نے احمد رضا قصوری جو اس کیس کے مدعی تھے نوٹس جاری کردیا جس کے بعد سماعت دو جنوری تک ملتوی کردی گئی۔

ای پیپر دی نیشن