بھارتی آبی جارحیت کے لئے موثر حکمت عملی نہ اپنائی تو چناب کے بہاﺅ میں ساڑھے تین لاکھ ایکڑ فٹ مزیدکمی واقع ہوسکتی ہے

لاہور (تجزیہ ندیم بسرا) بھارتی آبی جارحیت اور پانی چوری روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات اور موثر حکمت عملی نہ اپنائی تو بھارت سے پاکستان کی طرف دریائے چناب کے پانی کے بہاﺅ میں ساڑھے تین لاکھ ایکڑ فٹ مزیدکمی واقع ہوسکتی ہے۔ بھارتی آبی جارحیت کے آگے بند نہ باندھا گیا تو پھر پاکستان پیاسا، کھیت ویران اور کسان اجڑ جائینگے۔ بہت سے دریاﺅں کا رخ یا تو بھارت سے نکل رہا ہے یا بھارت سے ہوکر بنگلہ دیش اور پاکستان میں آرہا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشن گنگا پاور پروجیکٹ پر پیدا شدہ تنازعے پر دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی میٹنگیں بے نتیجہ ہی رہی ہیں ۔ عالمی بینک میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ریاست جموں وکشمیر میں ضلع بانڈی پورہ کے سرحدی علاقہ گریز میں مجوزہ کشن گنگا پاور پروجیکٹ تنازعہ کو حل کرنے کیلئے 10رکنی ثالثی ٹیم مقرر کی جس میں یورپ اور مغرب کے کئی ملکوں کے نمائندے شامل تھے۔ جس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ بھارت کا دریائے چناب پر برسار پراجیکٹ، پنجاب کو بنجر کرنے کا نیا منصوبہ حال ہی میں سامنے آیا ہے۔ جو پنجاب کے نشیبی علاقوں میں بہنے والے پانی کو تقریبا ختم ہی کر دے گا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو 1.7 ملین ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں جبکہ چناب پر بنائے جانے والے ڈیم میں 2.2 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہوگی جس کا مطلب پاکستان کے صوبہ پنجاب کو بنجر کرنا ہے۔ بھارت پاکستانی دریاﺅں پر پکل، ڈل، ڈل ہستی، رتلی، بگلیہار، سوال کوٹ اور سلال ہائیڈرو پراجیکٹ شروع ہیں۔ حال ہی میںبھارت نے 12 واں پانچ سالہ پلان ترتیب دیا ہے جس کے مطابق دریائے چناب پر 10 نئے پاور پراجیکٹس کو حتمی شکل دی گئی ہے جن میں برسار پراجیکٹ بھی شامل ہے۔ بھارت نے 2003ءمیں 50 ہزار میگاواٹ پن بجلی کے منصوبے بنائے اور متعلقہ اداروں کو مکمل معاونت فراہم کی ا س پروگرام کے تحت بھارت 19 ہزار میگاواٹ بجلی کا اضافہ کر چکا ہے جبکہ 15 ہزار میگاواٹ کے منصوبے تکمیل کے قریب ہیں۔ گریز میں 330میگاواٹ کشن گنگا پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے خلاف پاکستان نے یہ کہہ کر اعتراض اٹھایا ہے کہ اس کی تعمیر دونوں ملکوں کے درمیان 1962 میں ہوئے سندھ طاس آبی معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ پاکستان نے اس منصوبے کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیکر عالمی بینک کی ثالث کی7رکنی عدالت میں کیس دائر کیا تھا، سندھ طاس کمشن اور دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے ادوار کا سلسلہ10سال چلتا رہا، بھارت نے پاکستان کے تمام اعتراضات مسترد کرکے ڈیمز کی تعمیر جاری رکھی ہوئی ہے، پاکستان نے بھارت کے متنازعہ بجلی گھر کشن گنگا کے خلاف کیس عالمی بینک کی ثالثی عدالت میں دائر کیا ہوا ہے۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں دریائے چناب پر ایک بڑا ڈیم بنانے کے لئے سروے کیلئے پیشکشیں طلب کی جا رہی ہیں۔ برسار ڈیم سے پاکستان کو ملنے والے پانی میں مزید کمی ہو جائے گی وہاں پاکستان میں زراعت کیلئے پانی کی دستیابی کا مسئلہ اور زیادہ سنگین شکل اختیار کر جائے گا۔ بھارتی آبی جارحیت کا اصل ہدف پاکستان کو صحرا میں تبدیل کرکے خوراک کی خودمختاری سے محروم کرکے ایتھوپیا جیسی صورتحال سے دو چار کرنا ہے۔ بھارت کا دریائے چناب سے پمپس کے ذریعے پانی کی مزید چوری کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ بھارت نے پانی کے مستقبل کو بھانپتے ہوئے کئی منصوبے بنائے ہیں جن میں سے ایک گریٹر واٹر لنک ہے جو کئی دریاﺅں کو آپس میں کینال کے ذریعے ملا کر ان کی سمت اور بہاﺅ کو تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے۔ بھارت کا دوسرا منصوبہ 2014ء تک 40 سے زیادہ ڈیم بنا کر پانی کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ ہے جو مختلف مقامات پر بنائے جائیں گے۔ اس میں بھارت ان دریاﺅں کے پانیوں پر بھی ڈیم بنا رہا ہے جن پر بین الاقوامی معاہدوں کے لحاظ سے اس کے پاس حق نہیں ہے متذکرہ چالیس ڈیموں کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد بھارت کا غیر قانونی طور پر دریائے چناب اور جہلم کے 90فیصد پانی پر قبضہ ہو جائیگا جو کہ سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہوگا۔کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کیلئے دریائے جہلم کا رخ بھی موڑا جارہا ہے۔ یہ حکومت پاکستان کی ایک بہت بڑی سیاسی اور سفارتی ناکامی ہے کہ بھارت بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کی مخالفت کررہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن