بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا ہے کہ ان کا ملک اسلام آباد کے ساتھ کرکٹ‘ مذاکرات یا پھر جنگ‘ ہر طرح کی باہمی بات چیت کے لئے تیار ہے۔ اگر وہ کرکٹ کی بھاشا سمجھتے ہیں تو ہم کرکٹ کی بھاشا سمجھائیں گے، اگر وہ یدھ کی بھاشا سمجھتے ہیں تو ہم ان کو یدھ کی بھاشا سمجھائیں گے اور اگر وہ بات چیت کی بھاشا سمجھتے ہیں تو ہم انہیں بات چیت کی بھاشا سمجھائیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے مستقبل میں تعلقات کا انحصار 2008ءمیں ہونے والے ممبئی حملے میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی پر ہے۔ نئے بھارتی وزیر خارجہ نے بالکل صاف لفظوں میں واضح کردیا کہ پاکستان اگر چاہتا ہے کہ ہمارے تعلقات آگے بڑھیں تو اسے احتساب کرنا ہو گا۔ احتساب کیا ہے ؟ اس کا ذکربھی ان کے اسی ٹی وی انٹر ویو میں موجود ہے یعنی پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث لوگوں کی وائس ریکارڈنگ بھارت کے حوالے کرے دوسری صورت میں یدھ یعنی جنگ کے لئے تیار رہے۔پاکستان اوربھارت کے مابین بڑا اور بنیادی تنازعہ کشمیر اشو ہے ،بھارت اقومِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلہ کو حل کرنے کا پابند ہے لیکن اس نے حیلوں بہانوں سے اس اشو کو اتنا لٹکا دیا کہ 64سال بعد بھی یہ مسئلہ پہلے دن کی طرح موجود ہے۔بھارت اس پر مذاکرات کرتا ہے تو اس کامقصد عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہوتا ہے۔ وہ مذاکرات کی میز مرضی سے سجاتا اور جب دل کرتا ہے کوئی بہانہ بنا کر یا وقوعہ کھڑا کر کے اسے الٹ دیتا ہے ۔ 2008ءمیں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھارت میں تھے کہ ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچا کر ان کو بے توقیر کرکے واپس پاکستان بھجوایا گیا۔اس کے بعد سے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں۔نہ جانے بھارت کب تک اس واقعہ کو لے کر مسئلہ کشمیر پر مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کرتارہے گا۔ویسے بھی ایک طرف وہ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کرتا ہے دوسری طرف وہ اسے اپنا اٹوٹ انگ بھی قرار دیتا ہے ، بھارت کے اس موقف کے باوجود بھی ہمارے حکمران بھارت سے مذاکرات کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔یہ دونوں طرف کی قیادتوں کی منافقت نہیں تو اور کیاہے؟بھارتی لیڈر تو یہ منافقت اپنے مفاد کے لئے کرتے ہیں ہماری قیادت کس لئے کرتی ہے؟بھارت نے نہ صرف کشمیر پر اپنا قبضہ مضبوط بنایا بلکہ اس نے سیاچن کے وسیع علاقے پر قبضہ کرلیا ۔ ہماری قیادتیں نہ صرف کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج کے مظالم پر خاموش رہیں بلکہ سیاچن کے انخلاءکی بھی کبھی کوئی کوشش سامنے نہیں آئی ، ایسی بزدلانہ خاموشی سے شہ پاکر ہی بھارت اب سرکریک کے متنازعہ علاقے میں باڑ لگا رہاہے۔ اس نے ہمارے حکمرانوں کی بزدلانہ طبیعت کو بھانپ لیا ہے کہ چور نالے چتر کو مترادف پاکستان کو ممبئی حملوں کے حوالے سے تعاون نہ کرنے پر جنگ کی دھمکی دے رہا ہے، جبکہ اس نے خود اس معاملے میں پاکستان سے تعاون نہیں کیا ۔ ممبئی کیس کے حوالے سے بھارت گئے پاکستان کے جوڈیشل وفد کی اجمل قصاب سے ملاقات کرائی گئی نہ قصاب سے تفتیش کرنے والوں سے ملنے دیا گیا ، کیابھارتی حکام کو حقائق منظر عام پر آنے کا خدشہ تھا؟ پاکستان کو جنگ کے ذریعے سمجھانے کی بات کرنا بھارتی وزیرخارجہ کے شایانِ شان نہیں یہ سفارتی آداب کے سراسر خلاف زبان ہے۔ اس کا حکومت پاکستان کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیاجانا چاہیئے تھالیکن اس پر کوئی اعتراض ہو ا نہ احتجاج ، اس کو بھی حکمرانوں کی روائتی بزدلی ہی سے تعبیر کیا جائے گا۔ان کو کم از کم یہ تو احساس اور ادراک ہونا چاہئے کہ ایسی دھمکیوں پر بھارت کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی جاتی۔ وہ آپ کو یُدھ کی بھاشا دے رہا ہے، آپ اس کے ساتھ تعلقات کے مزید فروغ کے لئے بے قرار ہیں اور نئے سال کے پہلے روز اسے پسندیدہ ترین قوم کا درجہ دینے کا عزم کر رہے ہیں۔جس یدھ کی بات بھارت کے نئے مسلمان وزیر خارجہ نے کی ہے قوم اس کا جواب دینے کے لئے تیار ہے ،فوج بھی یقینابھارت کے اس بیہودہ سرکاری موقف کو ہضم نہیں کرسکتی، پاکستان بھارت کی باجگزار ریاست نہیں۔غیرت مند قوم کے حکمرانوں کو بھی غیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اگر وہ اینٹ کاجواب پتھر سے نہیں دے سکتے تو کم از کم سلمان خورشید کی طرف سے ننگی جارحیت پر مبنی بیان پر معافی مانگنے تک بھارت کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات قطع لرلینے چاہئیں۔