پشاور (اے پی اے) خیبر پی کے کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کی حتمی فہرست پیش کرنے کے لئے پشاور ہائیکورٹ نے حساس اداروں کو ایک ہفتے کی مہلت دیدی۔ چیف جسٹس دوست محمد خان اور سیٹھ وقار پر مشتمل دو رکنی بنچ نے 173 لاپتہ افراد کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل عدالت عالیہ کو مطمئن نہ کر سکے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بنوں جیل اور تھانے پر حملے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صوبائی حکومت کی کیا کارکردگی ہے۔ چیف جسٹس نے آئی ایس آئی، ایم آئی، آرمی ڈیٹینشن سےنٹر، چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا ، ہوم سیکرٹری سمیت تمام اداروں کے سربراہوں کو 14 دسمبر تک ایک ساتھ بیٹھ کر لاپتہ افراد کی فائنل فہرست ایک ہفتے میں مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو لارجر بنچ بنانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ چیف جسٹس جسٹس دوست محمد کا کہنا تھا کہ اگر ایک ہفتے میں فہرست پیش نہ کی گئی تو ڈیٹنشن سےنٹرز کو بھی غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس دوست محمدخان نے لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر لاپتہ افراد کا معاملہ حل نہ کیا گیا تو فوج کا فاٹا اور پاٹا میں رہنے یا نہ رہنے کا جائزہ لیا جائےگا۔ پشاور ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت ہوئی۔ لاپتہ شخص انارگل کے بیٹے نے عدالت کوبتایا کہ اس کا والد گذشتہ سال 23 مئی سے لاپتہ تھا۔ اس کی لاش 6 اکتوبر 2012ءکو مل گئی ہے۔ چیف جسٹس دوست محمد نے محکمہ داخلہ اور آئی جی پی کو انارگل کے معاملے کی تحقیقات کےلئے کمیٹی بنانے کا حکم دیا۔ عدالت نے جی ایچ کیو کے پرنسپل سٹاف آفیسر کو حکم دیا کہ انار گل کے معاملے کی تحقیقات کےلئے انکوائری بورڈ قائم کرے تاکہ پتہ چلایا جاسکے کہ انار گل کو کس نے اٹھایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو عدالت کوآئین کے تحت خود کارروائی کا اختیار حاصل ہے۔ عدالت نے کہا کہ 18 دسمبر تک لاپتہ افراد کی فہرست جمع کرائی جائے۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہوا تو فوج کے فاٹا میں رہنے نہ رہنے کا جائزہ لیں گے: چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ
Dec 12, 2012