چیمپئنز ٹرافی میں تحفہ‘ ہاکی نے آخر انگڑائی لے لی....!

پاکستان اور بھارت کے مابین چیمپئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ کی تیسری پوزیشن کے لئے میچ سے چند گھنٹے قبل نوید عالم نے فون پر روایتی حریفوں کے مابین ہونے والے مقابلے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ قومی ٹیم کی کارکردگی میں اتار چڑھاﺅ کے باعث میں تیسری پوزیشن کے میچ کے لئے بہت زیادہ پرامید نہ تھا تاہم نوید عالم روایتی حریف کے خلاف گرین شرٹس کے حوالے سے خاصے پرامید اور پرعزم تھے۔ 8 سال بعد میڈل حاصل کرنے کے بعد بھی انہوں نے مجھے مبارکباد کا میسج کیا یقیناً یہ میسج انہوں نے ہاکی سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کو بھی کیا ہو گا۔ نوید کو زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ پاکستان نے اپنے کوچز کے ساتھ میڈل جیتا ہے۔ یہ حقیقی معنوں میں ایک خوشی کی خبر تھی جسے پڑھ کر‘ سن کر اور کھلاڑیوں کو فتح کا جشن مناتے ہوئے دیکھ کر چند لمحوں کے لئے پاکستان ہاکی کا درد رکھنے والے سب کچھ بھول کر خوشی سے سرشار ہو گئے۔ فتح کا جشن مناتے منیجر و ہیڈ کوچ اختر رسول کی خوشی دیکھنے لائق تھی۔ چند روز قبل نوائے وقت نے صفحہ اول پر پاکستانی کھلاڑیوں کی تصویر شائع کی جس میں کھلاڑیوں کو قومی پرچم اٹھائے گراﺅنڈ کا چکر لگاتے اور سٹیڈیم میں موجود تماشائیوں کا شکریہ ادا کرتے دکھایا گیا ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں ایسے لمحات بہت کم آئے ہیں جب کھلاڑی کسی میچ کے افتتاح پر سینہ تان کر‘ سر اٹھا کر اور قومی پرچم کو لہراتے ہوئے گراو¿نڈ کا چکر لگاتے نظر آئے ہوں‘ اکثر و بیشتر کھلاڑی سر جھکا کر ہی گراو¿نڈ سے نکلتے نظر آئے ہیں۔ بہرحال یہ ایک بہت اچھی اور خوشی کی خبر ہے۔ اس کامیابی پر ٹیم کے کھلاڑی کوچنگ سٹاف اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کے عہدیداران مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یہ کامیابی اس لحاظ سے بھی خوش آئند ہے کہ قومی ٹیم نے ”دیسی کوچ“ کے ساتھ یہ میڈل حاصل کیا ہے۔ 2010ءکے ایشین گیمز میں گولڈ میڈل کے بعد ہاکی کے میدان میں یہ پہلی اچھی خبر ہے۔ تاہم اسے نقطہ آغاز سمجھنا چاہئے ابھی بہت لمبا سفر باقی ہے۔ ہمیں کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہم نے تمام کھوئے ہوئے اعزازات حاصل کرنے ہیں۔ خوشی کے ان لمحات میں ہمیں پہلے کی نسبت زیادہ حقیقت پسندی سے کام لینا ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ جرمنی‘ انگلینڈ‘ بیلجیئم اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں نے اپنے لئے کیا اہداف مقرر کر رکھے ہیں اور وہ کن خطوط پر تیاریاں کرکے آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے کنسلٹنٹ طاہر زمان کا کہنا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی میں ٹیم کی مجموعی کارکردگی بہتر رہی‘ میڈل جیتنا خوش آئند ہے۔ کامیابی کا کریڈٹ کھلاڑیوں اور کوچنگ سٹاف کو دیا جانا چاہئے۔ تاہم بحیثیت کنسلٹنٹ میرے خیال میں ہمیں ذمہ داری کے ساتھ حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اولمپک چیمپئن کی کارکردگی اور ان کی قوت 2014ءکے عالمی کپ اور آئندہ اولمپکس میں حالیہ چیمپئنز ٹرافی سے قطعی مختلف ہو گا۔ ہمیں اپنی کارکردگی میں بہتری اور وکٹری سٹینڈ پر رہنے کے لئے لانگ ٹرم پالیسی بنانا ہو گی۔ بہرحال موجودہ کارکردگی خوش آئند ہے اور بہتری کا عمل جاری رہنا چاہئے۔8 سال بعد چیمپئنز ٹرافی میں روایتی حریف کے خلاف کامیابی خوش آئند ہے۔ اس کامیابی کے نتیجے میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا گیا‘ مٹھائی تقسیم کی گئیں رانا مجاہد اس کام میں پیش پیش نظر آئے۔ اس کامیابی سے ایک بات سامنے آئی ہے کہ ہر وہ شخص جو ہاکی کے حکمرانوں کی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے یا مخالفت‘ قومی ٹیم کی فتح پر سب اکٹھے ہو کر خوشی ضرور مناتے ہیں۔ کاش ہاکی کے بڑے دماغ‘ بڑے نام اور ورلڈ کلاس کھلاڑی ایسے ہی مل کر قومی کھیل کی سربلندی کے لئے بھی سرگرم ہو جائیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...