پاکستان اور اسکے عوام کے جذبوں ، فوجی صلاحیت،سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے اورواحد اسلامی ایٹمی قوت ہونے کے حوالے سے ہرسطح کی نشست میںتبصرے کیے گئے، اوراس کے باوجود کہ سب لوگ اس بات سے واقف تھے کہ پاکستان اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے اور مشکلات سے دوچار ہے لیکن اس بات کو تسلیم کیاگیاکہ پاکستان نے امریکہ کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ مناسب حکمت عملی کے تحت اسے فاصلے پر رکھا ہے اور افغانستان میں اسے یکطرفہ طور پر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہونے دیا ہے۔ اس پس منظر میں حکومتی نمائندوں اور اسلامی تحریکوں کے قائدین کی طرف سے بار بار یہ رائے سامنے آتی رہی کہ پاکستان کو اسلامی تحریکوں کے زیر حکمرانی چلنے والے ممالک میں بالخصوص اور باقی عرب اور مسلم ممالک میں بالعموم دلچسپی لینی چاہیے اور انکی عسکری اور دفاعی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ عرب بہار کے بعد پاکستان اوریہاں کی سول و ملٹری بیوروکریسی کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی شدید ضرورت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امریکی خوف سے اپنی خارجہ پالیسی کو آزاد کیا جائے اورترکی، مصر، تیونس،سوڈان، لیبیا، مراکش، یمن اور دیگرمسلم ممالک کیساتھ ہمہ پہلو تعلقات کو آگے بڑھایا جائے اوراقتصادی،تجارتی، تعلیمی، دفاعی اور تکنیکی میدانوں میں دوطرفہ تعاون کی نئی راہیں تلاش کی جائیں۔
مسلم ممالک میں ایک عرصے سے سیکولر سوچ رکھنے والوں کی حکمرانی رہی ہے لیکن یہ کسی بھی مسئلے پر امت کی مشترک آواز بن سکے نہ کبھی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکے۔ ان کا دور باہمی کشمکش اورتنازعات کا دور ہے۔ اب اسلامی تحریکیں جگہ جگہ برسر اقتدار آرہی ہیں جو اسلامی اخوت و بھائی چارے اور ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ یہ تحریکیں نہ صرف امت کو صحیح معنوں میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر سکتی ہیںبلکہ یورپی یونین کی طرز پر مشترکہ دفاع، مشترکہ کرنسی، مشترکہ منڈی جیسی خواہشات کو عملی جامہ بھی پہنا سکتی ہیں۔ D-8 کا تصور بھی ترکی کے سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان کا دیا ہوا ہے جو اسلامی تحریک سے تعلق رکھتے تھے۔مسلم ممالک وسائل سے مالا مال ہیں۔ باہم متحد ہوں اور مشترکہ دفاعی و تجارتی اور ترقیاتی منصوبے شروع کریں تو یہ اپنے تمام سیاسی، اقتصادی اور دفاعی مسائل پر قابو پاسکتے ہیں۔
کانفرنس کے دوران ہم نے یہ محسوس کیا کہ امت کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں ۔یہ امنگ موجود ہے کہ پاکستان ایک مستحکم ملک کی حیثیت سے امت کی قیادت کرے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے تقویت کا باعث بنے۔ شرکائے کانفرنس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جس طرح باقی ممالک کے اندر تبدیلی آرہی ہے، پاکستان کے عوام بھی اپنے نظریے اوراپنے ملک کی اہمیت کے پیش نظرایسی قیادت کاانتخاب کریں جس کی بدولت پاکستان عالم اسلام میں اپناقائدانہ کردار ادا کرسکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوام پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلام کا قلعہ بنانے اور قائدانہ کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہاں کی سول و ملٹری بیوروکریسی اور اشرافیہ شفاف اور منصفانہ الیکشن کے ذریعے اسلامی تحریک کو راستہ دیتے ہوئے ملک کو درپیش مسائل کے گرداب سے نکالنے کیلئے تیار ہے ؟