جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے پاکستان کی حکومت 25 مارچ 1969ء کو سنبھالی اور 20 دسمبر 1971ء کو حکومت سے فارغ ہوگئے۔ جنرل آغا یحییٰ خان نے فیلڈ مارشل لاء محمد ایوب خان سے حکومت حاصل کی۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان 27 اکتوبر 1958ء سے 25 مارچ 1969ء تک پاکستان کے حاکم رہے۔ آئین کے مطابق قومی اسمبلی کے سپیکر مولانا تمیز الدین کو محمد ایوب خان کے بعد صدر پاکستان ہونا تھا۔ مگر یحییٰ خان نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور حکومت پر قبضہ کرلیا۔ ملک میں الیکشن کرایا۔
مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 162 میں سے 160نشستیں جیت لیں۔مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے 138 نشستوں میں سے 81 نشستیں حاصل کرکے اپنے آپ کواس حصہ کا قابل اختیار لیڈر منوا لیا۔ محترم یحییٰ خان نے انتخاب تو کرا دیئے، وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح وہ مشرقی حصہ میں امن ہوجائے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ حاوی ہوگئی۔ لوگوں نے شیخ مجیب الرحمن کو اس کے چھ نکات کی بناء پر ووٹ دیئے۔ مغربی پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو جو ووٹ دیئے گئے وہ سوشلزم نظام اور روٹی کپڑا مکان کے علاوہ اسلام ہمارا دین ہے۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، کی بناء پر دیئے گئے۔ سندھ اور پنجاب میں اور شیخ مجیب الرحمن کو مشرقی پاکستان میں کامیابی ہوئی۔ دونوں سیاستدان عوام کے مینڈیٹ سے ابھرے۔ 20 دسمبر 1970ء کو بھٹو صاحب نے کہا پاکستان میں کوئی ایسا قانون تشکیل نہیں ہوگا، نہ مرکز میں کوئی حکومت چلے گی۔ جس میں پیپلز پارٹی کی شمولیت نہ ہو۔ ان کی پارٹی کا تعاون مرکزی سیاست میں ضروری امر ہے اور انہوں نے مزید فرمایا کہ پیپلز پارٹی ایک انچ بھی اپنے مقاصد سے پیچھے نہیں رہے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ نے کہا ہم دونوں مشرقی پاکستان کے لئے اور آپ مغربی پاکستان کے عوام کے لئے منشور تیار کریں۔ دونوں اپنی ضد پر قائم رہے۔ جنرل یحییٰ خان نے مجیب الرحمن کو نوید ڈھاکہ میں سنائی کہ آپ آئندہ پاکستان کے وزیراعظم ہوں گے اور نیشنل اسمبلی کی میٹنگ ڈھاکہ میں رکھی مغربی پاکستان کے مجیب الرحمن نے اپنے ممبران کو سختی سے میٹنگ میں شمولیت سے روکا۔ عوامی لیگ بھی کم نہ تھی۔ شیخ مجیب الرحمن اور اس کے جوشیلے سیکرٹری جنرل تاج الدین نے اس بیان کا نوٹس لیا اور بیان جاری کیا ’’عوامی لیگ اکثریت میں ہے اور وہ ہر قسم کا قانون مرکز میں کسی پارٹی کے تعاون سے یا اس کے بغیر بنا سکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کو طاقت کے نشے سے گریز کرنا چاہئے ورنہ حالات اچھے نہ ہوں گے اور تلخیاں پیدا ہوں گی۔ یہ تھی پہلی بات جو تضاد کو بڑھاتی چلی گئیں۔ جب یحییٰ خان نے مجبوراً فوجی ایکشن لیا، وہ قتل عام ہوا تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ٹکا خان کے 25 مارچ 1971ء سرچ لائٹ آپریشن کیا۔ میںنہ مانوں، مشرقی پاکستان کی قیادت میں نہ مانوں، ہوا کیا؟ ملک دولخت ہوگیا۔
شیخ مجیب الرحمن نے کہا ان کی پارٹی مشرقی پاکستان میں چھ نکات کی بنیاد پر اکثریت میں آئی ہے، وہ عوامی مینڈیٹ کو چھوڑ نہیں سکتے۔ بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ مغربی پاکستان کے عوام نے ان کی پارٹی کو مینڈیٹ دیا ہے، وہ کیسے چھوڑیں؟ اب شیخ مجیب الرحمن چاہتے تھے کہ نیشنل اسمبلی کی میٹنگ ہو تاکہ چھ نکات کی توسیع ہو۔ چنانچہ بھارت نے ایسی نفسیات سے فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کے جہازوں کو ہندوستان کے اوپر سے اڑانے کی اجازت روک لی اور مجیب الرحمن کی مدد کی یقین دہانی کرائی۔ شیخ مجیب الرحمن چاہتے تھے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 15 فروری 1971ء تک بلایا جائے۔ صدر کو یہ مؤقف قبول نہ ہوا۔ ادھر مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے جلسوں میں اپنے مؤقف کو پیش کرنا شروع کردیا۔ بھٹو صاحب نے 15 فروری کو پشاور میں پریس کانفرنس میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ پیپلز پارٹی ڈھاکہ کے قومی اسمبلی کے الیکشن میں شامل نہیں ہوسکتی اور اگر ایسا ہوگیا تو پاکستان پیپلز پارٹی خیبر سے کراچی تک انقلاب لے آئے گی۔ اس کے بعد فوج کا ایکشن اور پاکستان کی علیحدگی ہوئی۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی
Dec 12, 2013