پاکستان کی ہر بڑی سیاسی جماعت برسر اقتدار آنے سے پہلے ’’کرپشن سے پاک معاشرہ‘‘ کے نعرے بلند کرتی نظر آتی ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد کرپشن کی روک تھام اس جماعت کی آخری ترجیح بھی نہیں رہتی۔ 9 دسمبر اینٹی کرپشن کا عالمی دن تھا۔ اس دن کی مناسبت سے مجھے کچھ اخبارات میں حکومت پنجاب کی طرف سے اس عزم کا اعلان نظر آیا کہ حکومت کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے کوشاں ہے۔ عوام بھی کرپشن سے پاک معاشرہ کے قیام کے لئے حکومت پنجاب کا ساتھ دیں۔ سب سے پہلے میں نے سیالکوٹ میں محکمہ انٹی کرپشن سے معلوم کیا کہ گزشتہ پورے سال میں انہوں نے کرپٹ سرکاری ملازمین کے خلاف کتنے مقدمات درج کئے ہیں تو مجھے جواب ملا کہ ضلع بھر میں چار تحصیلوں کو شامل کرکے اور سیالکوٹ شہر میں تمام صوبائی سرکاری محکموں کو شمار کرکے صرف 64 مقدمات سال بھر میں درج کئے گئے ہیں۔ صرف پولیس، محکمہ مال، ایکسائز، بلدیاتی اداروں، ماتحت عدلیہ کے اہلکاروں اور محکمہ صحت کے ملازمین کو کرپشن کو اگر دھیان میں رکھا جائے تو ہر محکمہ کے بدعنوان اہلکاروں کے خلاف روزانہ 100 کے قریب کرپشن کے مقدمات درج ہو سکتے ہیں اور ملزموں کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ صرف ایک ضلع میں لی جانے والی رشوت کی بنیاد پر اگر پوری تعداد میں مقدمات درج کئے جائیں تو سال بھر میں مقدمات کی تعداد ایک لاکھ سے بھی اوپر جا سکتی ہے۔ لیکن پورے ضلع سیالکوٹ میں گزشتہ ایک سال میں صرف 64 بدعنوان سرکاری افسروں یا اہلکاروں کے خلاف مقدمات کے اندراج سے حکومت کی کرپشن کے خلاف سنجیدگی کا علم ہو جاتا ہے۔ ضلع سیالکوٹ میں گزشتہ 6 ماہ سے ڈپٹی ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹی کرپشن موجود نہیں۔ جب میں نے ڈائریکٹر اینٹی کرپشن گوجرانوالہ سے رابطہ قائم کیا تو ان سے بھی معلوم ہوا کہ صرف سیالکوٹ نہیں گوجرانوالہ ریجن کے دوسرے اضلاع میں بھی کہیں ڈپٹی ڈائریکٹر نہیں ہے کہیں اسسٹنٹ ڈائریکٹر نہیں ہے اور کسی ضلع میں محکمہ اینٹی کرپشن کے پاس دونوں اعلیٰ افسر اپنے فرائض سرانجام دینے کے لئے موجود نہیں۔ پھر میں نے ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن صوبہ پنجاب کے دفتر سے معلومات حاصل کیں تو مجھے بتایا گیا کہ پنجاب بھر میں 120 کے قریب ڈپٹی ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی سیٹیں خالی ہیں۔ جب محکمہ اینٹی کرپشن میں ضلع کی سطح پر اینٹی کرپشن افسر ہی موجود نہیں اور پنجاب حکومت کو محکمہ انٹی کرپشن میں مطلوبہ افسروں کی تعیناتی میں کوئی دلچسپی بھی نہیں تو پھر پنجاب حکومت کا یہ دعویٰ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ ’’حکومت پنجاب کا عزم کرپشن سے پاک معاشرہ‘‘ حکومت پنجاب کی عوام سے یہ اپیل بھی صرف مذاق ہی معلوم ہوتی ہے کہ عوام معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے حکومت سے تعاون کریں۔ حکومت نے تو پورے پنجاب کے اضلاع میں محکمہ انٹی کرپشن میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی سطح کے افسر تعینات ہی نہیں کئے پھر عوام بدعنوانی کے ناسور سے پاک معاشرے کو پاک کرنے کے لئے کس کے پاس جائیں۔ ایک محدود اشرافیہ جو بار بار پاکستان میں اقتدار میں آ جاتی ہے۔ اس طبقے نے ہمیشہ سرکاری اداروں کو اپنی دولت میں اضافے کے لئے استعمال کیا ہے۔ جب حکمران لوٹ رہے ہوں تو پھر سرکاری افسر اور اہلکار بھی حسب توفیق کرپشن میں اپنا حصہ وصول کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ اس نقصان رساں چکر vicious circle میں سیاستدان اپنے چہیتے سرکاری افسروں کو تحفظ دیتے ہیں اور سرکاری افسر خود بھی ناجائز ذرائع سے مال کماتے ہیں اور اپنے سرپرست وزیروں اور ارکان اسمبلی کو بھی مال کا نذرانہ دے کر خوش رکھتے ہیں۔ اس صورتحال میں محکمہ انٹی کرپشن ایک بیکار اور معطل محکمہ بن کر رہ جاتا ہے۔ ایک ڈی ایم جی افسر، پولیس افسر یا پی سی ایس کیڈر کے کسی سینئر افسر کو جب محکمہ انٹی کرپشن میں بھیجا جاتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے سزا سمجھتا ہے۔ رشوت خور افسر بھی ان محکموں میں جانا زیادہ پسند کرتے ہیں جہاں سرکاری طور پر سہولتیں اور اختیارات زیادہ ہوں اور رشوت کے مواقع بے پناہ ہوں۔ بڑی بڑی رشوتیں لینے والے محکمہ انسداد کرپشن کے ملازمین کو بخشیش کے طور پر معمولی رقم دے کر خوش کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محکمہ انٹی کرپشن میں کوئی افسر خوشی سے نہیں آتا۔ ویسے بھی محکمہ انٹی کرپشن والوں کو معلوم ہے کہ ان کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن نے اپنے ریجن میں کسی ڈپٹی کمشنر یا اعلیٰ پولیس افسر کو رشوت کے جرم میں نہیں پکڑا ہو گا۔ صرف معمولی سرکاری اہلکاروں کے خلاف بدعنوانی کے جرم میں مقدمات درج ہوتے ہیں۔ ایک تحصیلدار اور ایک سب رجسٹرار جائیدادوں کی رجسٹریاں کرتے ہوئے اپنی مرضی کی رشوت لیتے ہیں اور ہر روز رشوت لی جاتی ہے لیکن گزشتہ ایک سال میں کتنے تحصیلداروں اور سب رجسٹراروں کو رشوت میں پکڑا گیا ہے۔ پی ڈبلیو ڈی اور محکمہ ہائی وے کے انجینئر، ایس ڈی او اور دیگر عملہ بھی ہر ٹھیکیدار سے رشوت لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری عمارات، سڑکوں اور گلیوں کی تعمیرات ہمیشہ انتہائی ناقص کی جاتی ہے لیکن کتنے انجینئر اور ایس ڈی او اس حکومت یا سابقہ حکومت کے دور میں محکمہ انٹی کرپشن نے گرفتار کئے۔ پھر بھی حکومت کو یہ اصرار ہے کہ وہ کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند سرفہرست ملکوں میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ کرپشن ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہاں محکمہ انٹی کرپشن کے پاس بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے افسر ہی موجود نہیں اور جو چند افسر محکمہ انٹی کرپشن میں کام کر رہے ہیں ان کے لئے بھی وہ سہولیات موجود نہیں اور جو چند افسر محکمہ انٹی کرپشن میں کام کر رہے ہیں ان کے لئے بھی وہ سہولیات موجود نہیں جن کو بروئے کار لا کر وہ کرپشن کے خلاف موثر طور پر کارروائی کر سکیں۔ کرپشن کا ناسور معاشرے کے لئے ڈینگی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اگر کرپشن کے انسداد کے معاملہ میں سنجیدہ ہیں تو وہ بدعنوان افسروں کے خلاف ڈینگی ختم کرنے جیسی موثر مہم کا آغاز کیوں نہیں کرتے۔
’’کرپشن سے پاک معاشرہ‘‘
Dec 12, 2013