پاکستان تمام پاکستانی قوم کا ملک ہے۔ پاکستان میں آباد ہر قسم کے لوگوں کے حقوق آئین اور قانون کے تحت برابر ہیں، کسی بھی پاکستانی کو دوسرے پاکستانی پر ہر گز کوئی فوقیت حاصل نہ ہے، پاکستان میں صوبہ بندی محض انتظامی امور کو مئوثر طور پر چلانے کا ایک ذریعہ ہے۔ آئین پاکستان کے تحت پاکستانی قوم کا بچہ بچہ ایک دوسرے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ سارے پاکستان میں اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔ ہم ایک ’’خدا‘‘ ایک رسول، ایک کتاب قرآن کو ماننے والے لوگ ہیں ہمارے قومی تہوار بھی سب کیلئے یکساں ہیں۔ سب مسلمان پاکستانی روزے رکھتے ہیں وہ زندگی میں حج کا فریضہ بھی ادا کرتے ہیں۔ دولت مند اپنی دولت سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ہم زکوٰۃ کو ایمانداری اور دیانت داری سے اکٹھا کریں اور اسکے بعد ان لوگوں میں زکوٰۃ کی جمع شدہ ر قوم کو تقسیم کریں جو زکوٰۃ کی وصولی کے حقدار ہیں تو اس طرح اس نظام کے تحت پاکستان سے غربت کو بہت حد تک ختم کیا جاسکتا ہے۔ زکوٰۃ کی مد میں ہرسال اربوں روپے اکٹھے ہوتے ہیں مگر افسوس یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ اربوں کی زکوٰۃ کی دولت روز اول سے پرانے اور نئے حکمران اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے خرچ کرتے ہیں۔ ضرورت مند اور حقدار غریب پاکستانی ہمیشہ کی طرح غربت اور محرومی کی چکیوں میں پستے چلے جاتے ہیں انکے بچے تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم چلے آرہے ہیں۔ آج بھی پاکستانی قوم کے کروڑوں بچے تعلیمی اداروں میں داخلے کی رسائی حاصل نہ کرسکتے ہیں۔
قوم کے یہی ہونہار اور ذہین بچے آگے جا کر گداگری، دہشت گردی، چوری، ڈاکہ زنی اور ملک دشمنی جیسے مکروہ کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ وہ آئین نامی کسی بھی دستاویز کو ہر گز نہ جانتے ہیں۔ پاکستان کے کونے کونے میں جہالت، تعصب، کینہ پروری اور سینہ زوری وغیرہ کو ہوا دینے اور چلانے والے آباد اور موجود ہیں۔ ہمارے قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے قریب قریب 100 فیصد ناکام و نامراد ہو چکے ہیں۔ ہر شہری ک دل و دماغ میں اپنی جان، مال، عزت، آبرو کو بچانے کی فکر موجود رہتی ہے۔ ہر شہری کو ہر وقت اس بات کا خوف رہتا ہے کہ وہ کسی وقت بھی کسی دہشت گردی کا شکار بن سکتا ہے۔ لوگ مایوسی اور بے چینی سے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ بات سن کر آپ ضرور حیران ہوں گے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ایک سابق جج جو میرے اچھے دوست ہیں، وہ ہر رات کو اپنے گھر کو اندر سے تالا لگا کر بند کرتے ہیں۔ جب وہ ہائی کورٹ میں ’’آن ڈیوٹی‘‘ ہوتے تھے تو وہ اپنے ’’ریٹائرنگ روم‘‘ کو تالا لگا کر عدالت میں اپنے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ وہ اپنا ہتھیار اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔ میرے خیال میں موجودہ حالات کے پیش نظر وہ یہ سب کچھ اچھا کرتے تھے۔ میں خود رات کو سونے سے پہلے اپنے گھر کی کنڈی خود لگاتا ہوں۔ میرے ہاں باقاعدہ پولیس گارڈز 24 گھنٹے موجود رہتے ہیں۔ ہر شہری کو اپنی ذات اور اپنے خاندان کی حفاظت کا کام خود بھی کرنا ہوگا۔ یہ وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے اگر آپ خود اور اپنے خاندان کے اراکین کو بے وقت موت سے بچانا چاہتے ہیں تو آپ کو موصوف جج صاحب اور میری طرح اپنی حفاظت کا انتظام کرنا ہوگا۔
اس بات پر غور کرنا بہت ہی ضروری ہوگیا ہے کہ پاکستان میں ہر شہری کو اس قدر بے چینی اور بے قراری کیوں ہوگئی ہے؟ میری سوچ کے مطابق اس طرح کے حالات ’’معاشی بے انصافی، بے روزگاری، بداعتمادی اور عام لوگوں کے حقوق کی بے رحم پامالی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں پیدا ہوگئے ہیں۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں حکمران اور امراء جائز ناجائز طریقوں سے دولت لوٹتے ہیں اور پھر اسی دو لت کو دنیا کے اور ملکوں کے بنکوں میں جمع کرا دیتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی ذرائع نے یہ خبر دی تھی کہ پاکستان کے 415 لوگوں کی 83 ارب ڈالرز کی دولت دنیا کے مختلف ملکوں کے بنکوں میں جمع پڑی ہے۔ اس خوفناک خبر کی تردید آج تک کسی نے نہ کی ہے۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ یہ خبر درست اور صحیح ہے۔
ہمارے پیارے وطن پاکستان میں قتل و غارت، ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کا بازار جگہ جگہ گرم پڑا ہے کسی مظلوم اور بے بس شہری کی فریاد سننے والا کوئی بھی نظر نہ آتا ہے، ہر کسی کی نظر سپریم کورٹ آف پاکستان پر جمی پڑی ہے۔ سیاسی اور حکومتی امور کو چلانا حکومتی اداروں کا کام ہوا کرتا ہے۔ افسوس کی بات ہے حکمران اپنے فرائض منصبی کو سرانجام دینے میں 100فیصد نہ سہی مگر اس کے قریب قریب ناکام نظر آتے ہیں۔ 27کروڑ پاکستانی قوم کے اندر ہی اندر مایوسی اور محر ومی کا لاوا پک رہا ہے۔ یہ لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے حکمران جاگ جائیں اور دن رات دکھی قوم کو سہارا دینے میں لگ جائیں۔ مہنگائی نے درمیانی اور نچلے طبقات کی زندگیوں کو تباہ کن حالات سے دوچار کر رکھا ہے۔ جلد ازجلد حکمران مہنگائی کو قابو کریں۔ خدانخواستہ یہ لوگوں کے دلوں میں پکنے والا لاوا جب بھی پھٹے گا تو اس سے ہونے والے نتائج یقینی طور پر خوفناک ہو سکتے ہیں۔ اس لاوے کے پھٹ جانے سے پہلے ہی حکمرانوں کو انقلابی سطح پر دن رات کام کرنا ہی پڑے گا۔