عارضی کھیل تماشہ

ایک قلم کار جب کالم لکھنے بیٹھتا ہے تو اسکے سامنے موضوعات تو بے شمار ہوتے ہیں لیکن ایک اچھے کالم نگار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایسا موضوع چنا جائے جس کو قارئین دلچسپی سے پڑھیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ کالم اگر ہو سکے تو ادبی مہک سے معطر ہی نہ ہو بلکہ تازہ افکار سے مزین بھی ہو۔ یہ ایسی معلومات کا مرکب ہو جس سے ہر طبقہ فکر کے لوگ مستفید ہو سکیں۔ اس میں کسی کی بے جا تعریف ہو نہ تضحیک ۔سوچ کی پاکیزگی، سچائی، صاف گوئی اور مہذب زبان کی پوشاک کالم کو دل پذیر بنا دیتی ہے۔ راقم اہل زبان ہے نہ ادیب، میں اپنے کالموں کیلئے جن موضوعات کو اہم سمجھتا ہو ان کا تعلق زیادہ تر قومی سلامتی سے ہے ،یہی وجہ ہے کہ پچھلے سات سال میں میرے کالموں کا محور ملکی مسائل، اندرونی و بیرونی خطرات، خطے کے حالات، بین الاقوامی سیاست کے مختلف روپ اور جیو پالیٹکس کے دوسرے موضوعات رہا ہے جبکہ ہمارے بہت سے ملکی کالم نگاروں کی سوچ ملک کی موجودہ سیاست اور کرنٹ واقعات و حالات پر مرکوز رہتی ہے۔ یہ سارے اپنی جگہ بہت اہم موضوعات ہیں لیکن ان کالموں کی آغوش میں لپٹی معلومات اور تبصروں کی اہمیت اسی صورت میں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے اگر ہماری قلم کی نوک سے کاغذ پر تراشے جانیوالے ہر لفظ کی بنیاد دیانت اور خدا خوفی پر رکھی گئی ہو۔
آج کے اس تیز ترین دور میں وقت کی بڑی اہمیت ہے۔ آج قارئین کے پاس ایسے کالم پڑھنے کا وقت بالکل نہیں جن کی بنیاد کوئی ریسرچ نہیں بلکہ صرف لفاظی ہوتی ہے۔ ٹھوس دلائل اور دیانتدارانہ تجزیوں پرمبنی کالمز اچھے سمجھے جاتے ہیں۔ دفاع، امور خارجہ، معیشت، سیاست، صحافت، کھیل، کلچر، جرائم، بے روزگاری، عدل و انصاف اور بے شمار ایسے موضوعات ہیں جو واقعی عوام کے لئے معلومات اور حکومت کے لئے رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں لیکن آج جس موضوع کی طرف میں قارئین کی سوچ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ میرے خیال میں وہ مذکورہ بالا سب موضوعات سے زیادہ اہم ہے۔ وہ ہے اس جہان فانی میں انسانی حیات کی ایک پانی کے بلبلے کی طرح بڑی ہی عارضی حیثیت۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہم کتنی تیز تیز دوڑیں لگاتے ہیں اور سب بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں۔ تجربات حاصل کرتے ہیں بہت سارے موضوعات پر بہت کچھ لکھتے ہیں ۔ ہماری سوچ کا محور اولاد، گھر، پیشہ، مال و دولت، جائیداد، عہدے، جدید کاریں، اچھی پوشاک اور تیز رفتار ذاتی جہاز اور ہیلی کاپٹرز رہتے ہیں۔ آخرت سے بے نیاز دنیا کے ان معاملات میں ہم اس حد تک پھنس کر رہ جاتے ہیں کہ ہمیں یہ دنیاوی ریل پیل ابدی نظر آتی ہے۔ پھر اچانک ایک دن یہ عارضی کھیل تماشہ اختتام پذیر ہوتا ہے تو بڑے بڑے دولت مند انسانوں اور جلیل القدر عہدوں پر فائز بڑی بڑی ہستیوں اور جاہ و جلال والے بادشاہوں کے جسد خاکی کو نام سے نہیں بلکہ میت کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ علامہ اقبال مسلمان قوم کے اتحاد کیلئے جوش و جذبے کے ساتھ سرگرم عمل رہے اور پھر یہ فرما کر اس جہان فانی کو خیر باد کہہ گئے کہ سر آمد روزگار ایں فقیرے ۔سر سید احمد خان اور قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کی فلاح کیلئے جذبے دیدنی تھے مگر پھر یہ سب صورتیں خاک میں پنہاں ہو گئیں۔ یہاں مجھے نظیر اکبر آبادی کے یہ شعر یاد آ رہے ہیں۔…؎
جو قبر کہن اس کی اکھڑی تو دیکھا
نہ عضو بدن تھا نہ تار کفن تھا
نظیر ہم کو پہلے ہوس تھی کفن کی
جو سوچا تو ناحق کا دیوانہ پن تھا
ستر کی دہائی کے آخر میں میری تعیناتی جی ایچ کیو ملٹری آپریشن ڈائریکٹوریٹ میں بطور میجر ہوئی تو میرے سینئر لیفٹیننٹ کرنل سلیم حیدر تھے۔ بہت ہی عاجز ہنس مکھ ، بہترین انسان اور محبوب فوجی کمانڈر جن کے ساتھ ملٹری آپریشن میں گزرے ہوئے میرے دو سال میر ی زندگی کا یادگار سرمایہ ہیں۔ اللہ نے ان کو ترقیوں سے نوازا اور وہ لیفٹیننٹ جنرل بنے۔ راولپنڈی کی کور کو کمانڈ کیا اور باعزت ریٹائر ہوئے۔ 2012ء کے اوائل میں جب میری مرحومہ بیگم پنڈی سی ایم ایچ فیملی وارڈ میں زندگی کے آخری سانس لے رہی تھیں تو اس وقت اتفاقاً جنرل سلیم حیدر مجھے سی ایم ایچ فیملی وارڈ کے لان میں بیٹھے مل گئے۔ میں نے پوچھا آپ یہاں کیسے آئے تو بتانے لگے ان کی بیگم جو ایک نہایت ہی نفیس خاتون تھیں بلڈ کینسر میں مبتلا ہو گئیں ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں۔ چند دنوں کے بعد وہ بھی میری بیگم کے ساتھ ہی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ ابھی ہم اپنی بہن مسز سلیم کی بے وقت وفات کے صدمے میں ہی تھے ، اچانک خبر ملی کہ لیفٹیننٹ سلیم حیدر جو محفل کی جان ہوا کرتے تھے غالباً پراسٹیٹ کے کینسر میں مبتلا ہو کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ خبر ایسے تھی جیسے آسمان سے اچانک بجلی گری ہو۔ جنرل سلیم حیدر یاروں کے یار تھے۔ انکی جدائی انکے حلقہ احباب کو ویران کر گئی۔ بالکل اسی طرح میرے ایک اور بہت ہی قریبی دوست اور بھائی لیفٹیننٹ جنرل حامد نواز نے بہت ہی عجلت میں ہمیں داغ مفارکت دیا۔ جنرل حامد نواز میری طرح ایک آرٹلری آفیسر تھے۔ انہوں نے جب نیشنل ڈیفنس کالج میں وار کورس کیا تو وہاں فیکلٹی ممبر تھا۔ جنرل حامد نواز بغیر شک کے نہ صرف ایک اچھے دوست، ایک بہترین اور قابل اعتبار ساتھی بلکہ ایک قابل ترین فوجی کمانڈر تھے۔ وہ سوچ کر بات کرتے اور انکی دلیل میں بہت گہرائی اور وزن ہوتا تھا۔ موت سے چند ہفتے پہلے میری ان سے ٹیلی فون پر بات ہوئی اور میں نے انہیں کہا کہ بہت دن ہو گئے ہیں گپ شپ نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا میں جلد ہی آپکے پاس آئونگا لیکن میری بدنصیبی کہ ایک مخلص ساتھی کی صحبت کا وعدہ وفا نہ ہو سکا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ جنرل حامد نواز صحیح معنوں میں دانشور تھے ۔انکی رحلت نے پاکستان کو ایک محب وطن اور روشن خیال مدبر سے محروم کر دیا۔
اسی طرح بریگیڈئیر ناصر محمود کا تعلق چکوال ضلع کے ایک گائوں دلمیال سے تھا۔ یہ وہ گائوں ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس گائوں کی تقریباً ہر ماں ایک لیفٹیننٹ کو جنم دیتی ہے۔ سابق گورنر جنرل صفدر کا تعلق اسی گائوں سے ہے۔ اس گائوں کے بہادر سپوتوں کی برٹش آرمی میں بہترین کارکردگی اور جرات و شجاعت کی بدولت انگریز حکمرانوں نے اہل دیہہ سے کہا کہ آپ اپنے گائوں کیلئے مانگیں کیامانگتے ہیں۔ انگریز حاکم کا خیال تھا کہ جواب میں بجلی، پانی، ملازمتیں، گلیاں پکی کرنے یا سڑک بنانے کے مطالبات آئینگے لیکن انگریز ایڈمنسٹریٹر یہ سن کر حیران رہ گیا کہ گائوں والے چاہتے تھے کہ ایک فوجی توپ گائوںکے ایک چوراہے پر نصب کر دی جائے۔ جو آج بھی موجود ہے۔ بریگیڈیئر ناصر محمود حس مزاح کی نعمت سے بھی مالا مال تھے وہ مزاح سے لطف اندوز بھی خوب ہوتے۔ ہم 1966ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں اکٹھے تھے۔ بریگیڈئیر ناصر ایک سیدھا سادہ بھولا بھالا فوجی آفیسر تھا جو محفل کی جان تھا۔ اخلاص اور دوستوں کیلئے قربانی کا جذبہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ میں نے اور بریگیڈئیر ناصرمحمود نے 1973ء میں نوشہرہ کے سکول آف روٹری میں گنری سٹاف کورس اکٹھے کیا تھا۔ یہ وہ کورس تھا جس میں جنرل پرویز مشرف بھی بحیثیت میجر ہمارے کلاس فیلو تھے۔ بریگیڈیئر ناصر ایک شفیق باپ ایک نہایت قابل اعتبار ساتھی اور ایک محب وطن پاکستانی تھے۔ میں نے اور بریگیڈئیر ناصر محمود نے نیشنل ڈیفنس کالج میں 1988ء میں وار کورس بھی ایک ساتھ کیا۔ چند ہفتے پہلے ان کو ایسا دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا ۔ وہ بھی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ جہاں ہمارے بہت ہی قریبی ساتھی عزیز و اقارب، والدین اور بڑے بڑے حاکم، سالار اور بادشاہ سب کچھ چھوڑ کر دھرتی میں روپوش ہو گئے۔ آج کے کالم کا سبق یہ ہے کہ دنیاوی کاموں میں دل لگا کر محنت کرنا ضروری ہے لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہئیے کہ جب ہم اس جہاں سے رخصت ہونگے تو صرف دو گز کفن کا ٹکڑا ہی ہمارا لباس ہو گا۔ایسا لباس جس کی کوئی جیب نہیں اس لئے کہا گیا کہ:
 ’’Live as if you were to Die.‘‘

ای پیپر دی نیشن