گلو بٹ ایک ذہنیت کا نام ہے

Dec 12, 2014

اختر علی مونگا

پاکستان عوامی تحریک کے ہیڈ کوارٹر واقع ماڈل ٹائون لاہور پر ہونے والے تصادم پر ٹی وی کے مختلف چینلز نے جو کچھ دکھایا اس میں حیران کن تماشا ایک شخص گلو بٹ کا تھا جس طرح اس نے ڈنڈا اٹھائے ہوئے پولیس کو پیچھے لگا کر مظاہرین پر دھاوا بولا اور بعد میں جس طرح وہ پولیس کی موجودگی میں گاڑیاں توڑتا رہا اور ایک ایس پی سے شاباش وصول کرتے ہوئے جس طرح وہ فخر یہ انداز میں ادھر ادھر پھر رہا تھا ایسے لگتا تھا کہ جس طرح وہ پولیس کا آفیسر ہے یا پولیس اس کی خوش آمد کر کے کسی کی خوشنودی چاہتی ہے یہ بھی پتہ چلا کہ اسے ’شیر لاہور‘ کہا جاتا ہے اس کے بعد اس کے جتنے بھی انٹرویو ہوئے سب میں پیش کی گئی معلومات ناقص، غلط اور غیر تسلی بخش معلوم ہوئی تھیں۔ اس نے اپنے آپ کو ایک بیوقوف اور احمق شخص کے طور پر پیش کیا ہے جو قرین قیاس نہیں لگتا۔ اس واقع میں دو عورتوں سمیت پندرہ سولہ اشخاص جاں بحق ہوئے اور تقریباً سوکو گولیاں لگیں یہ بات زبان زد عام تھی کہ اس آپریشن کے لئے ایک مہینہ پہلے سے بے شمار میٹنگز ہوئیں جو رات گئے تک جاری رہتیں تھیںاور ان سب کا مقصد وہی تھا جو بعد میں ہوا کہ ’قادری کو سبق سکھا دو’۔ قطع نظر اس بات کے کہ اس کا کیا بنے گا اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی ہوگی ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایک مائنڈسٹ ہے۔مورخہ 8 دسمبر 2014ء بروز سوموار فیصل آباد میں سابق وزیر قانون پنجاب نے اپنی دھمکیوں کو عملی جامع اسی طرح پہنایا ہے جس طرح انہوں نے ماڈل ٹائون کے بھیانک واقع کے بعد نہایت ظالمانہ بیان دیا تھا کہ’ ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا جانا چاہئے۔چند دن جناح باغ میں پھولوں کی نمائش کے افتتاح کے موقع پر حکمران پارٹی کے ایک اہم کارکن کے فنکشن میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو، تین طالب علموں نے حکومت کے خلاف، گو نواز گو، کا نعرہ لگایا تو کافی تعداد میں ’گلو بٹ‘ جو ساتھ ہی آئے تھے اور شاید اسی مقصد کے لئے آئے تھے کہ اگر کوئی ایسا نعرہ لگے تو نعرہ لگانے والوں کی بھر پور مرمت کی جائے ان پرپل پڑے اور پہلے ان کو بری طرح زدوکوب کیا گیا اس کے بعد پولیس نے ان کی اپنے طریقے سے ’خیر گیری‘ کی اور پھر تھانے لے جا کر بھی ان کی خاطر خواہ خدمت‘ کی گئی اور بعد میں ان کو چھوڑ دیا گیا۔اس سے پہلے معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے حق میں صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے نابینوں کو پنجاب پولیس نے اپنے روایتی انداز میں بری طرح زدکوب کیا جو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے ساری دنیا کو دکھایا اس سے پہلے   مبشر لقمان کی لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر 150/200 ’گلو بٹ‘ اس کو گھر پہنچانے کے لئے آئے تھے مگر اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ کیونکہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد مع وکلاء کمرہ عدالت میں اکھٹی ہوگئی تھی۔
اس سے پیشتر نرسوں کے ایک جلوس پر پولیس نے بری طرح لاٹھی چارج کیا اور عورتوں پر دست درازی کی بدترین مثال پیش کی اسی طرح وزیر آباد حکومتی پارٹی کے ایک ایم پی اے (بٹ صاحب) نے ’گو نواز گو‘ کے نعرہ لگانے والے چھوٹے چھوٹے بچوں پر بری طرح تشدد کر کے ان کو مار  بھگایا اور ٹی وی پر سلائیڈ چلی کہ یہ ٹریلر تھا آئندہ اس سے بھی بدتر ہوگا۔
گوجرانوالہ سے گزرتے ہوئے پی ٹی آئی کے جلوس پر جس طرح حملہ کیا گیا اور اس کے بعد گوجرانوالہ میں حال ہی میں منعقد کئے گئے ایک جلسہ میں مخالف پارٹی پر پھینکنے کے لئے جس طرح گندے انڈے ٹماٹر اور جوتے ہزاروں کی تعداد میں پولیس نے پکڑے وہ بھی اس مائنڈسٹ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی یادش بخیر سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور باقی ججز پر سپریم کورٹ کے احاطے میں جو کچھ کیا گیا وہ اب تک لوگوں کے ذہن میں ہے اور ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
اس قسم کے بے شمار واقعات بیان کئے جاسکتے ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گلو بٹ ایک ذہنیت کا نام ہے جس کا مطلب ہے بدمعاشی، غنڈہ گردی، زبردستی، اور انتہا پسندی، یہ ایک ایسا رجحان ہے جس کی بھر پور مذمت کی جانی چاہئے اور ہر سطح پر اس کے خلاف آواز اٹھائی جانی چاہئے چونکہ اس طرح معاشرے میں بے چینی پھیلے گی اگر سارے فریق اس کو اپنانے لگے تو معاشرے میں ایک سول وار کی سی صورت حال بن جائے گی جو جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق دی گئی آزادی کے تحت لوگوں کو اپنے اختلافی بیان کے اظہار کا موقع دیا جانا چاہئے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس روئیے کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوگا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ اب اپنے حقوق سے آگاہ ہوگئے ہیں لوگوں کو زبان مل گئی ہے اور لوگوں کی کثیر تعداد یہ سمجھتی ہے کہ اپنی آواز بلند کرنا ان کا بنیادی حق ہے اور کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ ان سے ان کا یہ حق چھیننے کی کوشش کرے۔حکومت وقت کو دل بڑا رکھنا چاہئے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور دھمکیوں اور بھڑکوں سے گریز کرنا چاہئے صلح والی باتوں سے ماحول بہتر رہتا ہے اور کشیدگی میں کمی آتی ہے جس طرح موجودہ حکومت دو، تین وزراء ہر وقت الٹے سیدھے بیانات دے کر فضا کو خراب کرتے رہتے ہیں۔ وہ حکومت کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ اور اس میں حکومت کے لئے سراسر خسارہ ہی خسارہ ہے جس سے جتنی جلدی بچا جائے حکومت وقت کے لئے بہتر ہوگا۔ ہم تو حضور کو نیک و بد سمجھائے دیتے ہیں۔

مزیدخبریں