دین اسلام ی دین حق و صداقت اور” سراپا“ امن و عافیت ہے، جس کے انوار سے سارا عالم روشن و منور ہو گیا۔ اللہ تعالی کے تمام رسولوں نے ساری دنیا کو” امن و شانتی“ کا سبق پڑھایا اور تمام انبیاءکے سردار اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے تمام بندوں کے لئے بلاتفریق مذہب و ملت امن و سلامتی کا پیغام دیا اور دنیا سے فتنہ و فساد، انتشار و افتراق کو ختم کرنے اور باہم اخوت و محبت کے جذبات کو فروغ دینے پر زور دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ قتل و غارتگری کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اقوام عالم کو اتحاد و یگانگت کا درس دیا۔اسلام میں امن و سکون کے قیام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر حد سے گزرنے والے اور زمین پر فساد برپا کرنے والوں کے تعلق سے وعید فرمائی۔ جیسا کہ سورہ یونس میں ہے کہ ”زمین میں فساد نہ کرنا، یاد رکھو! اللہ تعالی فسادیوں کو پسند نہیں فرماتا“۔ اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا کہ ”حد سے گزرنے والے لوگ جو زمین میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح کا کام نہیں کرتے، ان کی بات نہ مانو“۔ (سورہ قصص)پیغمبر اسلام، نبی رحمت، آبروئے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کو امن و امان، یکجہتی و اتحاد کا ایسا درس دیا، جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ فتح مکہ کے موقع پر اسلامی عساکر کے سالار کو ہدایت جاری فرمائی کہ جنگ میں بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور مذہبی رہنماو¿ں کو نہ مارا پیٹا جائے اور نہ ان پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ آج آپ شام کشمیر فلسطین اورعراق میں انسانی حقوق کے چمپین کہلانے والوں کی کرتوتیں دیکھیں۔ معصوم بچوں اور خواتین کا قتل عام کیا جا رہا ہے ، فتح مکہ کے دن اپنے اوپر کئے گئے ایک ایک ظلم کا بدلہ لے سکتے تھے اور ہر ایک ظلم و زیادتی کا جواب مکمل طورپر انتقام کے ذریعہ دیا جاسکتا تھا، مگر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا، یہاں تک کہ اپنے خون کے پیاسوں کو بھی معافی عطا فرمادی اور انتقامی جذبات کے تصور کو چکنا چور کردیا۔دورِ حاضر کی حکومتیں اگر قتل و غارتگری، جرائم، لوٹ مار، غنڈہ گردی، درندگی اور دہشت پسندی کو ختم کرنا چاہتی ہیں تو انھیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام امن کے فرامین سے ہدایت حاصل کرنا چاہئے، کیونکہ اسلامی تعلیمات کو اپنائے بغیر جرائم میں کمی کا تصور محال ہے اور نہ ہی استحصالی ذہن و فکر کے افراد سے ظلم و بربریت ختم کیا جاسکتا ہے۔ حقیقی معنوں میں اگر آپ دنیا میں امن و سکون فراہم کرنا چاہتے ہیں اور دنیائے انسانیت کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے متفکر ہیں تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کرم سے وابستہ ہوکر امن کے خواب کو پورا کرسکتے ہیں۔حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا غیر جانبدارانہ طورپر جن لوگوں نے مطالعہ کیا، وہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ آپ سے بڑا امن کا داعی اس روئے زمین پر پیدا نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ظالموں اور دشمنوں کے پتھر کے جواب میں مصطفی نے دعائیں دیں، اذیتیں اور ظلم و زیادتی برداشت کیں اور دشمنوں پر غلبہ پانے کے باوجود آزادی کا پروانہ عطا کیا۔ لہذا دنیا کو ماننا پڑے گا کہ قیام امن کے سب سے بڑے داعی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔امن معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس کے بغیر انسان اور درندہ میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ معاشرہ کی تعمیروترقی کے لیے امن کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ روزاول سے ہی یہ ایک اہم مسئلہ رہاہے اورآج کے پرفتن دورمیں یہ مزید اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ حضرت آدم سے لے حضرت محمد تک جتنے بھی انبیاء اس دنیامیں تشریف لائے، انھوں نے امن وامان کی بحالی، ظلم و ناانصافی کا خاتمہ اورحقوق کی ادائیگی کو اہمیت دی ہے۔اگرموجودہ دور کا جائزہ لیاجائے تو تعصب، ذاتی منفعت کے بے جاحصول اور فرقہ پرستی نے ایسا ماحول بنادیاہے کہ ظلم کوظلم نہیں سمجھا جاتا۔ دن دھاڑے بستیاں جلادی جاتی ہیں۔” عبادت گاہیں منہدم“ کردی جاتی ہیں۔ انسانی زندگی امن وطمینان کی خواہاں ہوتی ہے، اس لیے ہرمذہب میں امن واطمینان عدل وانصاف اورسلامتی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ امن کا پیغام دینے والا مذہب ”دین اسلام“ جس کے بارے مخالفین نے عام لوگوں کے درمیان غلط پروپگنڈا کررکھا ہے اوراسے دہشت اور وحشت کا معنی بنادیا ہے۔ مگر تاریخ اس پر گواہ ہے اور اس سے واقفیت رکھنے والے حق پسند حضرات، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام درحقیقت انسان کوامن وسلامتی کاپیغام دیتا ہے۔ جس کی تعمیرآپسی محبت اورباہمی مساوات سے ہوتی ہے۔اسلام سے قبل سرزمین عرب کی تاریخ پر نظرڈالی جائے تومعلوم ہوگا کہ عرب قوم ایسی ظالمانہ، وحشیانہ اورجابرانہ تھی کہ معمولی سی بات پر دوقبیلے صدیوں تک آپسی جنگ جاری رکھتے اور انتقام کی آگ میں جھلستے رہتے تھے خواہ اس کے لیے سینکروں جانیں لینی یادینی پڑیں،مگرانھیں اس کی کوئی پرواہ نہ ہوتی تھی۔ گویا انتقام کے لئے انسانی جان کی کوئی قیمت اوروقعت نہ تھی۔ تعصب کا حال یہ تھا کہ ہرامیر غریب کو ستاتا اور طاقتور کمزوروں پرظلم ڈھاتا تھا۔ لوگوں نے اپنی تخلیق کا مقصد بھلا دیاتھااورخودتراشیدہ بتوں کواپنا معبود حقیقی سمجھ کران کی پرشتس کرناان کامعمول اور خود ساختہ راہ اختیارکرتے ہوئے فساد و بگاڑ پیدا کرنا ان کا شیوہ بن چکاتھا۔ اس کے نتیجے میں ظلم وزیادتی،قتل وغارتگری،چوری وبدکاری اور بداخلاقی کابازارگرم ہوگیاتھا۔ معاشرتی زندگی تباہ و بربادہوچکی تھی اورامن و امان پوری طرح پامال ہو چکا تھا۔محسن انسانیت پیغمبراسلام نے دشمنوں کے ساتھ بھی اچھا برتاوکیا۔ ایک مرتبہ ایک دشمن نے اچانک آپ کی تلوارلے لی اورکہنے لگا ”آپ مجھ سے کون بچاسکتاہے“ آپ نے فرمایا ”اللہ“یہ سنتے ہی تلواراس کے ہاتھ سے گرگئی آپ نے تلواراپنے قبضے میں لے لی مگراسے معاف کردیا اور اس سے درگزرکیا۔امن وامان کی پامالی میں حب جاہ ومال کابھی بڑادخل ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ دنیاوی اعتبار سے خود کومالدارسمجھ کراپنے کو بڑاسمجھنے لگتے ہیں۔ اس کی ہوس میں اندھے،بہرے اورگونگے بن کر ایک گناہ کرتے چلے جاتے ہیں، انسانی زندگی کی کچھ قدریں ہوتی ہیں جن کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ اگر ان کی حفاظت نہ کی جائے توانسان ایک درندہ صفت حیوان بن جاتاہے۔ اسی کے پیش نظر اسلام نے ناحق قتل،غارتگری،شراب خوری، فحاشی و زنا کاری، بداخلاقی وبدکاری سے منع کیاہے۔ تاکہ تمام انسان اس کائنات میں وہ امن وسکون کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔اس لیے ہم علم وعمل، گفتار وکردار، نشست وبرخاست کومکمل طورپر اسلامی سانچے میں ڈھالیں اورامن و انسانیت کے دشمن، نفرت پھیلانے والے فاسد عناصر سے ہر ممکن مقابلہ کے لیے تیار رہے ۔ طاقت کے ہوتے ہوئے مخالفین کو معاف کریں ۔آپ کے اسوہ حسنہ سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ اپنے ماتحتوں پر ظلم سے گریز کریں اور امن کے سب سے بڑے داعی کی سنت کو اپناتے ہوئے دوسروں کو معاف کرنیکا طریقہ سیکھیں۔
”امن کے سب سے بڑے داعی “
Dec 12, 2016