اگلے روز الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں نیب لاہور کی طرف سے کرپشن کیخلاف ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمان خصوصی سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ میاں اللہ نوا زتھے مہمان خصوصی کے انتخاب پر نیب لاہور داد کی مستحق ہے کہ اس حوالے سے اس نے نہ صرف ایک اہل بلکہ انتہائی ایماندار شخصیت کا انتخاب کیا میاں اللہ نواز جن کا تعلق بہاولپور کے ایک معزز گھرانے سے ہے اور انکی ایمانداری ثابت کرنے کیلئے ایک ہی مثال کافی ہے جب وہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تھے تو انکے والد گرامی جو اللہ بخش مہتمم کے نام سے مشہور تھے ایک کیس میں انہوں نے اپنے بیٹے سے کسی کی سفارش کی۔ ایک سعادتمند بیٹے کی طرح میاں اللہ نواز لاہور سے بہاولپور پہنچے اور اپنے والد محترم کے سامنے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا انہوں نے وجہ پوچھی تو میاں اللہ نواز نے انکی طرف سے کی گئی سفارش کا ذکر کیا اور ساتھ ہی کہا کہ میں نے اللہ کو بھی جان دینی ہے میں وہاں کیا منہ دکھائوں گا۔ اس پر مرحوم اللہ بخش مہتمم نے اپنے بیٹے کو سینے سے لگایا اور اپنی سفارش واپس لیکر ان سے کہا جائو اب جب تک تم لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہو تو میں بالکل پر امید ہوں کہ یہاں فیصلے میرٹ، قانون اور انصاف پر ہونگے اور آئندہ میں اپنے بیٹے کو کوئی سفارش نہیں کروں گا۔ یقیناً میاں اللہ نواز صاحب کا کرپشن کیخلاف نیب کے سیمینار میں بطور مہمان خصوصی انتخاب نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل شہزاد سلیم نے ہی کیا ہوگا کہ وہ خود بھی ایک نہایت دیانتدار آفیسر ہیں اور لوگوں کو اب تک یاد ہے کہ جب سپریم کورٹ کے کہنے پر نیب میں چھانٹی کی گئی تو شہزاد سلیم کی ایمانداری کے باعث سپریم کورٹ نے انہیں کلین چٹ دی۔ شہزادسلیم نے اپنی سروس کا آغاز ہی نیب سے کیا اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے بعد 2013میں آپ نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے اور آپ نے اپنے فرائض منصبی سنبھالتے ہی نہایت تندہی اور تیزی سے ملزموں کو پکڑا اور اربوں روپے وصول کئے۔ اس وقت نیب لاہور کے پاس دیگر مقدمات کے علاوہ پانامہ کیس کے مشہور مقدمات بھی زیر سماعت ہیں ایک مریم نواز کیخلاف اور دوسرا وزیر خزانہ اسحاق ڈار کیخلاف۔ دبئی میں اس وقت قیام پذیر میرے ایک عزیز دوست او ر ساتھی اقبال حسین لکھویرا جو خود بھی اس وقت دبئی کے اخبار سے وابستہ تھے۔انکے بقول ایک بار نوائے وقت کے معمار اور پاکستانی صحافت کے امام حضرت مجید نظامی دبئی تشریف لائے تو اسحاق ڈار ان سے ملنے تشریف لائے تو اس وقت اقبال حسین لکھویرا بھی موجود تھے وہ کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار عام کپڑوںمیں ملبوس تھے اور پریشانیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ انکے چہرے سے صاف عیاں تھا تو مجید نظامی مرحوم نے لکھویرا صاحب کو کہا کہ ان کا خیال رکھا کریں۔ انہوں نے اثبات میںجواب دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کہاں اسحاق ڈار اور کہاں اقبال حسین لکھویرا کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی۔ جہاں تک دوسرے مشہور کیس کا تعلق ہے تو وہ ہے مریم نواز شریف ایون (Aven) اپارٹمنٹس کا جو لندن میں واقع ہیں ان اپارٹمنٹس کے نمبر ہیں 16-16a,17-17a یہ کیس سپریم کورٹ کی ہدایت پر احتساب عدالت اسلام آبا دکو منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دو کیس نیب راولپنڈی اور دو نیب لاہور کے پاس ہیں۔ ڈائر یکٹر جنرل نیب لاہور کے ترجمان ذیشان انور نے بتایا کہ ملزمان کی طرف سے ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کے بارے میں بے سرو پا اور بے بنیاد افواہیں پھیلائی جارہی ہیں اور انکی ڈگری کے بارے میں فضول باتیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہجہاں تک ان کی ڈگری کا تعلق ہے تو انہوںنے 2002 میں امتحان پاس کیا اور 2015میں ایچ ای سی نے تصدیق کی کہ انکی ڈگری اصل ہے اور 31مارچ 2017میں سپریم کورٹ نے ڈگری کے حوالے سے انہیں پہلے ہی کلیئر کیا ہوا ہے اور یہ افواہیں محض اسلئے پھیلائی جارہی ہیں کہ ڈی جی نیب سے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے جائیں جوکہ ناممکن ہے کیونکہ اب ان کا روز حساب آچکا ہے ۔نیب لاہو رکے ترجمان ذیشان انور کے مطابق اس وقت جو کیس نیب عدالت میں چل رہے ہیں ان میں فیروز پور روڈ پر ماڈل ہائوسنگ انکلیو ایک نام نہاد سوسائٹی ہے جس میں تین چار ارب روپے کا فراڈ ہے نہ تو یہ سوسائٹی ایل ڈی سے منظور شدہ ہے اور نہ ہی اس کا لے آئوٹ پلان منظور شدہ ہے۔ اسکے تین ہزاز وائوچر بنائے گئے ایک وائوچر کی قیمت ساڑھے تین لاکھ تھی اس کا چیف ایگزیکٹو فرحان چیمہ گرفتار کیا جا چکا ہے علاوہ ازیں دو اور ملزم محمد قاسم اور فرہاد علی بھی زیر حراست ہیں ۔سی آئی اے گجرات سے ایس ایچ او کو گرفتار کیا گیا، اسٹیٹ لائف انشورنس اور پوسٹل لائف انشورنس میں بوگس پالیسیاں بنانے میں 10افراد کو پکڑا ہوا ہے ۔ اسی طرح واپڈا ٹائون میں ایک اسٹسٹ کمشنر صفدر ورک کو گرفتار کیا جو رجسٹری کی مد میں خرد برد کررہا تھا۔ متروکہ وقف املاک بورڈ میں آصف ہاشمی کے دور میں بطور چیئر مین اس نے 600غیر قانونی بھرتیاں کیں اور 1870ملین روپے کی ایم ایس ہائی ٹیک سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کی گئی او ساری رقم ڈوب گئی یہ آپس کی ملی بھگت کا شاخسانہ تھا اور بعد میں آدھی رقم کمپنی ہڑپ کر گئی اور آدھی آصف ہاشمی ۔اس حوالے سے 13افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ایک تازہ ترین کیس کا ذکر کرتے ہوئے ترجمان نے بتایا کہ ہم نے حال ہی میں وزیر قبیلے کی ایک بااثر شخص امیر خان وزیر کوگرفتا رکیا ہے یہ سیکرٹری لیول کا آدمی ہے اور اب ریٹائر ہوچکا ہے۔ اگر بہ نظر غائر بھی دیکھا جائے تو نیب کی اس مختصر رپورٹ میںوہ کیس ہیں جو بڑی رقوم او ر معروف لوگوں کے ہیں اور جو دھڑلے سے خرد برد اور فراڈ کرتے ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ دور آصف علی زرداری کا ہو یا نواز شریف کا جب اوپر سے ہی کرپشن شروع ہوگی تو نیچے والے لوگو ں بھی پہنچے گی ۔ ہماری نیب سے درخواست ہے کہ وہ ہر سطح پر کمیٹیاں قائم کرے او رجہاں جہا ں کرپشن کے مواقع دکھائی دیں وہاں اچھی طرح چھان بین کی جائے ۔ باایں ھما نیب کا ادارہ ہمارے کرپشن میں ڈوبے ہوئے ملک کے لئے بے حد ضروری ہے مگر ایمانداری بشرط استواری۔