زندگی کی حقیقتوں سے فرار خود فریبی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ فرار کے دھوکے میں بسائے جانے والے خیالستان زندگی کی تلخ حقیقتوں کو نہیں جھٹلا سکتے۔ اس حقیقت کا علمی شعور تو برسوں پہلے مجھے ہو چکا تھا لیکن فرار سے خود فریبی اور خود فریبی سے تباہی تک کے مراحل کس قدر اندوہ ناک ہوتے ہیں، اس بات کا ادراک مجھے ملنگی کی موت سے پہلے نہ ہوا تھا۔
مونچھوں کو تاؤ دیتے دیتے جب وہ ڈیرے پر آتا تو کوئی اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ ایسا ہٹا کٹّا انسان ایک روز حاجی پیر بخش کی پیلی میں مُردہ پایا جائے گا۔ سیاسی مصروفیات، ڈیرے داری کے مسائل اور پنچائیتی الجھنوں میں شاید میں بھی کچھ ایسا کھو گیا تھا کہ میں نے غور ہی نہ کیا کہ کب وہ ڈیرے پر آنا چھوڑ گیا۔ گزشتہ ہفتے گاؤں جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ چھ ماہ قبل وہ سگریٹ کے ساتھ ساتھ چرس بھی استعمال کرنے لگا تھا اور پھر کسی نے اسے پنّی بناتے دیکھا اور کسی نے ٹیکے بھرتے۔ چار جواں سال بہنوں کی شادی کی پریشانی اور بیمار بیوہ ماں کی دواؤں کے خرچے کی فکر تو اسے لاحق رہتی ہی تھی، بڑی بہن کی طلاق نے اسے زندگی سے مایوس کر دیا تھا۔ پھر اسے نہ جانے کس نے فرار کی راہ سجھائی۔ اسے خبر بھی نہ ہوئی کہ یہ فرار، فرار نہیں خود فریبی تھی۔ وہ خود فریبی جس نے نہ اسے کسی کام کا چھوڑا نہ اسکے گھرانے کو۔ نشے کی لَت نے نہ گھر کا کوئی سامان چھوڑا نہ گھر والوں کی عزت کو،،، اور اب منوں مٹی تلے سوئے اسے یہ خبر بھی نہیں کہ اسکے بچے دو وقت کی روٹی کو بھی ترس رہے ہیں۔ بڑے، بڑے منصوبے بناتے اور روشن مستقبل کے خواب دیکھتے وقت ہم نے شاید کم ہی سوچا ہو کہ ایک خاموش دشمن ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ کچے گھروندے ہوں یا مزین محلات، کون سی جگہ ہے جو نشے کی لعنت سے پاک ہے۔ حال ہی میں ایک معروف غیر سرکاری تنظیم کا سروے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ جان کر حیرت بھی ہوئی اور پریشانی بھی کہ ہماری نجی جامعات میں پڑھنے والے 53 فی صد طلبہ کسی نہ کسی نشے میں مبتلا ہیں۔ یاد رہے کہ یہ محض نجی جامعات کے اعدادوشمار ہیں۔ سرکاری جامعات میں یہ میٹھا زہر کس حد تک سرائت کر چکا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کی کوئی سنجیدہ کوشش بدقسمتی سے آج تک نہیں کی گئی۔ یہ امر اپنی جگہ باعثِ صد فکر ہے کہ جامعاتی سطح پر پڑھنے والے بالعموم 18 سے 35 سال کے نوجوان ہوتے ہیں جو ہماری کُل آبادی کا تقریباً 60فی صد ہیں۔ یعنی کل کے معماروں کا نصف اپنے آج اور کل سے بے خبر نشے میں دھُت ہے۔ کون نہیں جانتا کہ افیون نے چین کو کس طرح تباہ و برباد کر ڈالا۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برطانویوں نے چینی مصنوعات کے حصول کیلئے چینیوں کو ایسی افیون زدگی کا شکار کیا کہ انیسویں صدی کے نصف اول تک چین کے صوبہ گوانگدان اور فیوجین کے ہر دس میں سے نو افراد افیون کے عادی ہو چکے تھے۔ اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آج کی ابھرتی ہوئی عالمی معیشت چہار سُو نشے میں دھُت پڑی تھی۔ پھر ماؤ کے انقلاب نے خوابِ غفلت میں پڑے افیون زدہ چینیوں کو جگایا تو چین کا ہی نہیں، دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ہمارے ساتھ 1980ء کی دہائی میں دلچسپ ماجرہ ہوا۔ افغانستان کو روسیوں سے واگزار کروانے چلے تھے اور ان سے ہیروئین، چرس، افیون اور نہ جانے ایسے کتنے نشے لے کر لوٹے۔ افغانستان میں تو خیر آج بھی وہی ہو رہا ہے جو وہاں صدیوں سے جاری ہے لیکن ارضِ پاک کی رگوں میں وہ زہر داخل ہو چکا ہے جس کے تریاق کیلئے ماؤ کی سی کرشماتی طاقت کی ضرورت ہے۔
میں ایسے نصابی مباحث میں نہیں الجھنا چاہتا کہ نشہ آور ڈرگز کتنی قسم کی ہوتی ہیں اور یہ کسی شخص پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہیروئین، کوکین، حشیش، افیون، چرس، گردہ، آئس کیوبز، وائٹ کرسٹل، اور ایکسٹیسی جیسے درجنوں میٹھے زہر ہماری قوم کے رگ و پے میں سما رہے ہیں۔ کہیں غربت، کہیں محرومی، کہیں بے روز گاری، کہیں جنسی ہیجان، کہیں سماجی گھٹن، کہیں نفسیاتی الجھنیں، کہیں اپنوں کی کرم فرمائی، کہیں غیروں کی سازشیں جتنی طرح کے نشے اتنی تاویلات۔۔۔! ہمیں یقیناکسی بیرونی دشمن سے اتنا خطرہ نہیں جتنا اس خاموش قاتل سے ہے؛ اور سب سے خطر ناک بات یہ ہے کہ ہمیں اب تک اسکی سنگینی کا مطلوبہ حد تک اندازہ بھی نہیں ہو پایا حالانکہ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اہلِ چین نے اپنے ماضی، حال اور مستقبل کو دھویں میں اڑا دیکھا لیکن انھیں ماؤ جیسا رہ نما میسرآیا تو دیکھتے ہی دیکھتے اندھے گڑھے میں دھنسی چینی قوم نہ صرف نشے کے خمار سے باہر نکل آئی بلکہ اب تو اس کا دنیا پر حکومت کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آنے لگا ہے۔ایسا اس لیے ہوا کہ چینی معاشرے کو من حیث المجموعی اس حقیقت کا احساس دلا دیا گیا کہ وہ مجرم نہیں مظلوم ہیں۔ انھوں نے نشے کا عادی ہو کر کوئی جرم نہیں کیا بلکہ انھیں نشے کا عادی بنا کر ان پر ظلم کیا گیا ہے۔ چنانچہ نشے کے عادی ہر فرد سے ہمدردی کو شعار کیا گیا۔ اس خاموش دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بھی ایسے ہی مشنری جذبے کی ضرورت ہے۔ حکومتی سطح پر خواہ کتنے ہی بحالی کے مراکز قائم کر دیے جائیں، ہم مرکزی دھارے سے بھٹک جانے والوں کو اس وقت تک راہِ راست پر نہیں لا سکتے جب تک کہ انھیں یہ احساس نہ دلا دیا جائے کہ وہ مجرم یا گناہ گار نہیں مظلوم ہیں۔ واپسی، اسی صورت میں ممکن ہے۔ اگر فی الحقیقت مذکورہ اعداد و شمار کے مطابق ہمارے نصف سے زائد نوجوان کسی نہ کسی نشے کا شکار ہو چکے ہیں تو ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اسکے تریاق کے متعلق سوچنا ہو گا۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ ارضِ پاک گم گشتہ چین کی مثال بن جائے اور ہماری قوم خاکم بدہن ملنگی کی طرح کسی حاجی پیر بخش کی پیلی میں بے جان پڑی ملے۔
؎ابھی بھی وقت ہے‘ چاہو تو کھینچ لو باگیں
وگرنہ وقت تمہیں بے نشان کر دے گا