قارئین 10 دسمبر کو دنیا بھر میں حقوق انسانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے بلکہ ہم سمجھتے ہیں اخلاقی اقدار اور انسانی حقوق کی پامالی میں پاتال تک اتر جانے والے آج کے انسان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس میں ابھی بھی اتنی اخلاقی جرأت باقی ہے کہ وہ اپنے حقوق کی بحالی کے عنوان سے اس داستان خونچکاں کا دن بھی منا لیتا ہے۔ اس سال بھی ظاہر ہے یہ دن منایا جائے گا‘ جلسے ہوں گے‘ جلوس نکلیں گے‘ مذاکرے ٹاکرے ہوں گے‘ سیمینار منعقد کئے جائیں گے۔ پاکستان اس نیکی سے کیوں تائب رہے گا یہاں بھی یہی کچھ ہوگا بلکہ ہم پاکستانی تو دن منانے میں اور اس کی نمائش لگانے میں کچھ زیادہ ہی شیر واقع ہوئے ہیں۔ سال کے 365 دنوں میں ایسے دنوں کو بطور دن منانے سے پہلے اگر عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتے تو کیا ایک دن بھی نہ منائیں؟ پھر دن منانے کون سے مشکل ہیں اللہ تعالیٰ نے دن بنائے‘ ہم نے منائے‘ نہ زور لگا نہ زر‘ بالا بالا زبانی کلامی حقوق انسانی کے بارے میں دو بول جھاڑ کر ان کی عملی تکمیل کردی‘ فرض سے مشتابی فارغ ہوئے‘ زبان کی اُلی اتری‘ اخبار میں تصویر چھپی‘ نام کی پتنگ اڑ گئی‘ سب نے منہ اٹھا اٹھا کر دیکھا‘ عش عش ہوئی کہ فلاں دردمند قوم نے یہ نکتہ اٹھا دیا‘ وہ راز برملا کہہ دیا اللہ اللہ خیرسلا… ہاں من حیث القوم عملاً حقوق کو فرائض اور فرائض کو حقوق سمجھ کر ادا کرنا پتہ پانی کرنے کے مترادف ہے‘ وہ کوئی کیوں کرے؟ بنیادی طور پر ہم سب کو اس فارمولے ہی کو آنکھوں کا سرمہ بنا کر اپنی بصارت اور بصیرت کو تیز کرنا ہے جو بابائے انسانیت و جمہوریت امریکہ نے طے کردیا ہے۔ وجہ معلوم/ اس کے سامنے ہمارے سمیت سب کی جگہ سب سے پچھلی قطار میں ہے۔!ہم اکثر محاورتاً بولتے ہیں اجی فلاں کام کر گزریئے آپ کے کون سے ٹکے لگتے ہیں امریکہ نے حقوق انسان کے حوالے سے اس محاورے کو پکڑ کر الٹا ٹانگ دیا ہے فرمایا ٹکے بھی لگتے ہیں تو کیا ہوا لگائیں گے اور نام کمائیں گے سو حکم دیا جائو عراق میں ہزاروں بچوں کو دودھ اور دوا کی بندش سے موت کے منہ میں دھکیل دو‘ روانڈا کے آغوں آغوں کرنے کی عمر سے لے کر دودھ کے دانت گرنے والی عمر کے بچوں کو سوکھی ٹہنیوں جیسی مائوں کے کندھوں سے لٹکا کر گھنے جنگلوں اور ننگی سڑکوں پر پھنکادو‘ افریقی قحط زدہ بچوں کے منہ کی خوراک دریائوں کے منہ میں ڈال دیا کرو بعد میں یوم فلاح اطفال منا لیں گے ۔ ہیروشیما کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے بعد وہی تاریخ اب یہ انداز دگر (قسطوں میں) کشمیر‘ فلسطین اور افغانستان میں دہرائی جارہی ہے‘ انسانوں اور انسانی حقوق کا خون کھیتوں کھیلانوں سے بہتا ہوا شہروں اور گلیوں کے منہ تک آپہنچا ہے مگر اس کا حقوق انسانی کا دن منانے کا جوش ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوا۔ شکاگو کے ہزاروں فاقہ کش مزدوروں پر اندھی گولی چلائی ساتھ ہی MAY DAY ایجاد ہوگیا‘ غریب ممالک کو میعاد بھگتی دوائیوں سے لاد دینے اور ان کے ہسپتالوں کو آہ بہ لب مریضوں سے لبا لب بھر دینے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے ’’یوم صحت‘‘ منانے کا اعلان کردیا سو یہ دن بھی مانا بلکہ منوایا جاتا ہے‘ یوں بھی آسان یہی ہے کہ دن منا لو اور کلیجی ٹھنڈی کرلو۔ ادھر ہمارے پیارے ملک میں بھی بہت سارے دن قومی سطح پر منائے جاتے ہیں نہ منائے جاتے تو ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ وطن عزیز میں فلاں فلاں خرابیاں ہیں جنہیں ہم انتہائی پھرتی اور مہارت سے محض ’’ایک دن‘‘ کے ٹارگٹ پر ختم کردیتے ہیں۔چونکہ حقوق نسواں اور حقوق انسان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے یہ دو تہوار الگ الگ منائے جاتے ہیں حالانکہ حقوق نسواں کی تکمیل کی اطلاع ہمیں ہر روز ان کی سوختگی‘ چہرے پر تیزاب ڈالنے‘ گلے میں پٹہ ڈال کر سربازار گھمانے اور چار دیواریوں کے اندر ان کے ہزاروں بے نام روحانی‘ نفسیاتی اور جذباتی قتل کے اعدادوشمار سے بھی ہو جاتی ہے اسی طرح جب خواندہ لوگ ناخواندگی کا دن خواندگی کے نام سے مناتے ہیں تو اس کی اصل رپورٹ ہمیں عالمی ادارہ دیتا ہے جس سے ہم خوشی حاصل کرنے کے علاوہ ملک میں سکولوں کا جال بچھانے کا کام لیتے ہیں۔ ایک دن ہم قائداعظم کی پیدائش کا بھی مناتے ہیں۔مصور پاکستان علامہ اقبال کا دن بھی ہم بہت فخر سے مناتے ہیں‘ انکے ترانے گاتے ہیں‘ مزار پر پھول چڑھاتے ہیں بس صرف انکے افکار و اشعار شاہین بچوں کے دل و دماغ سے محو ہوگئے ہیں۔ لیاقت علی خان جن کے مکے کا نشان صرف دشمن ہی کیلئے نہیں پوری دنیا کیلئے مسلمانوں کے یک مشت اور مضبوط ہونے کا اشارہ تھا‘ ہم اسے اپنے ہاتھوں سے شہید کرکے یوم شہید ملت منا لیتے ہیں۔ ہم یوم صدیق اکبر مناتے وقت دین حق کیلئے ان کے صدق و صدقہ کو بھول جاتے ہیں‘ حضرت عثمان غنی نے غلے سے بھرے ہوئے سینکڑوں اونٹوں کی مہاریں کس طرح قحط زدہ لوگوں کی طرف مڑوا دیں عملاً یہ سوچ ابھی ہمارے حصے میں نہیں آئی لیکن دن منالینے میں کیا حرج ہے۔ ہماری سرزمین پر کتنے غریب قحط کے بغیر خالی پیٹ سو جاتے ہیں یا ہم ہر سال سونا اگلنے والی زمین پر کتنے فاقے ہوتے ہیں اور کتنی موتیں کاٹتے ہیں یہ شمار ہمارا کام نہیں ہے۔ حضرت عمرفاروق کا دن مناتے وقت ہم ان کی اس پرشکوہ سادگی کو بھول گئے ہیں کہ وہ فاتح کی حیثیت سے ملک شام میں داخل ہوتے ہیں تو خادم اونٹ پر اور آپ خود مہار بدست تھے۔ اس کے برعکس پچھلے 64 سال سے لے کر لمحہ موجود تک وطن عزیز و مفلسی میں حاکموں کے اردگرد کاروں کا گھیرائو نہیں ٹوٹتا اسی طرح ہم یوم حضرت علی ان کی کتاب نہج البلاغہ کو طاق پر رکھ کر مناتے ہیں‘ ہم اس باب علم میں جھانکنا ہی نہیں چاہتے جس میں روحانیت اور کشف و کرامات کے انوکھے اسرار بند ہیں۔ بہرحال سوچنا یہ ہے کہ اگر ہم نے ان تمام عظیم لوگوں کی روح کے منافی عمل کرنا ہے تو پھر دن مناتے ہی کیوں ہیں؟ ہمارا یہ فخر بجا کہ ہم آسمانی مذہب رکھتے ہیں‘ رہتے زمین پر ہیں لیکن اپنے مذہبی دنوں کی ڈور چاند کے ساتھ باندھتے ہیں یا یہ کہ روز قیامت ہماری شفاعت کیلئے اور ہمارے گناہوں کو اپنی کالی کملی سے ڈھانپ لینے والی وہ ہستی اکمل موجود ہوگی جو جواز کائنات ہے جو پوری کائنات کیلئے مینارہ نوروالیقان ہے لیکن کیا جب ہم ان کا مقدس یوم پیدائش مناتے ہیں تو ان کے اسوۂ حسنہ کو بھی آنکھوں کا سرمہ بنا لیتے ہیں؟ ان کی کتاب مقدس اور سنت پر عمل بھی کرتے ہیں؟ یاد رکھیے سب اپنے اپنے عمل کے خود جوابدہ ہیں اگر ہم ان ایام کو ان کی خصوصیات اور روح کے مطابق نہیں بناسکتے تو پھر ہمارے لئے منانے کیلئے صرف ایک ہی دن باقی بچ جاتا ہے جب:…
’’اور کیسا خوفناک دن ہوگا وہ جب پہاڑ چلا دیئے جائیں گے‘ ستارے مٹا دیئے جائیں گے‘ آسمان کھولا جائے گا جو پھٹ کر تیل کی تلچھٹ کی طرح گلابی ہوجائے گا‘ چاند‘ سورج آپس میں ملا دیئے جائیں گے اور زمین کی ہر بلندی کوٹ کر پست کردی جائے گی لیکن اس روز کسی جان پر ظلم نہ ہوگا سب کو اس کی کمائی بھر کردے دی جائے گی اور اسے اس کا اگلا پچھلا سب جتا دیا جائے گا۔‘‘ (القرآن)