لاہور (فرخ سعید خواجہ) حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی مخالف سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، (ق) لیگ، عوامی مسلم لیگ، مجلس وحدت المسلمین کی جانب سے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے یہاں اظہار یک جہتی کیلئے ہفتہ اور سوموار کو ڈیرے ڈالے جانے کے خلاف مسلم لیگ (ن) نے بھرپور انداز میں اس سارے اکٹھ کو ایجنسیوں کی کارروائی قرار دیا اور اسٹیبلشمنٹ سے کھلی جنگ کا اعلان کرتے ہوئے نئے دھرنے کے خلاف جس انداز میں آواز اٹھائی اسکا اثر ہے یا مسلم لیگ (ن) کے موقف سے عام آدمی کے متاثر ہونے کا اندیشہ تھا یا کوئی اور خاص وجہ، گزشتہ روز سوموار کو ڈاکٹر طاہر القادری کے یہاں کسی سیاسی شخصیت نے قدم رنجہ نہیں فرمایا۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کی بازگشت اب بھی سنائی دے رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان بیک ڈور چینل سے اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ اسمبلیوں کی رکنیت سے استعفوں کا آپشن موجودہ حکومت پر آخری وار کے طور پر استعمال کیا جائیگا، اس سے ایک پنتھ دو کاج ہوں گے، ایک تو سینٹ الیکشن کیلئے الیکٹرول کالج ادھورا ہوجائیگا، دوسرے موجودہ حکومت نئے عام انتخابات پر جانے کیلئے مجبور ہوجائیگی تاہم ایسی صورت میں نگران حکومت آتی ہے، قومی حکومت یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت، اس پر ملک میں آئندہ جمہوریت کا دارومدار ہوگا۔