وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں وزراء کی کارکردگی کا 9 گھنٹے جائزہ ‘ نئے اہداف مقرر
وزیرِاعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں گزشتہ روز 26 وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اس اجلاس سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات چوہدری فواد حسین نے کہا کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس 9 گھنٹے جاری رہا۔چودھری فواد حسین کے بقول کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ایک نہایت مشکل وقت میں اقتدار سنبھالا۔ آج ملک تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، پاکستان آج خطہ کے دوسرے ممالک کے مقابلہ میں بھی بہت سارے شعبوں میں پیچھے رہ گیا ہے، ایسے حالات میں کچھ نہ کرنا یا معمول کے مطابق کارروائی آپشن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں غریب کی حالت زار کی بہتری کی بات اکثر ہوتی رہی ہے لیکن سابقہ حکومتوں اور موجودہ حکومت میں یہ فرق ہے کہ ہم نے ملک اور عوام کی حالت کی بہتری کی بات محض ووٹ حاصل کرنے کیلئے نہیں کی بلکہ ہم دل سے اس پر یقین رکھتے ہیں۔ وزیرِاعظم نے کہا آج ملک میں 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ان حالات میں ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ ہم موجودہ حالات کو ٹھیک کریں۔ وزیرِاعظم نے کہا وزارتوں کی کارکردگی کا ہر تین ماہ بعد باقاعدگی سے جائزہ لیا جائیگا اور ہر وزارت کو مزید ٹارگٹ دیئے جائینگے۔ انہوں نے وزراء کو ہدایت کی کہ انکی وزارتوں کی جانب سے سو دنوں میں جو اہداف مقرر کئے گئے ہیں انکے حصول کیلئے لائحہ عمل تشکیل دیکر ان کو یقینی بنایا جائے۔ مزید برآں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ وزیراعظم عمران خان جس محنت، صبر اور تحمل سے تمام وزراء کی کارکردگی جانچ رہے ہیں یہ انہی کا خاصہ ہے، سو دن میں وزارتوں میں جو کام ہوئے ہیں پچھلے دس سال میں اس کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ جن وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ان میں داخلہ، خارجہ، دفاع، اطلاعات، ریلوے، خزانہ، منصوبہ بندی اور مواصلات شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کابینہ کے ارکان سے پوچھے گئے بطور خاص تین سوالات پر زور دیا کہ بطور وزیر اب تک کیا کیا؟ آئندہ کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ اخراجات میں کتنی کمی کی؟
پاکستان کی سیاسی اور خصوصی طور پر جمہوری تاریخ میں پہلی مرتبہ کابینہ کے ہر رکن سے فرداً فرداً 100 روز کی کارگزاری پوچھی گئی اور ساری صورتحال سے میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں وزارتوں اور ڈویژنوںکو کارکردگی بیان کرنے کا موقع دیا گیا اور وزیراعظم نے ہر وزیر کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔ ہر وزارت اور ڈویژن کو بریفنگ کیلئے 10 منٹ دیئے گئے‘ بریفنگ کے بعد وزراء سے 5 منٹ سوالات و جوابات بھی ہوئے۔ وفاقی وزراء اپنے ساتھ 100 روزہ کارکردگی کی رپورٹس لائے تھے۔ اجلاس سے پہلے کہا جا رہا تھا کارکردگی تسلی بخش نہ ہونے پر وزراء کے قلمدان تبدیل ہوسکتے ہیں تاہم ایسا کوئی فیصلہ نہ ہوا۔ کیونکہ وزیراعظم کا بینہ کے ارکان کی کارکردگی سے مطمئن تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کے پہلے اجلاس میں واضح کردیا تھا کہ غیرمعمولی حالات میں وزراء سے غیرمعمولی کام اور کارکردگی کی توقع ہے جو وزیر خود کو وزارت کا اہل ثابت نہ کر سکا‘ اسکی کابینہ میں جگہ نہیں رہے گی۔ کابینہ کے ہر رکن کا فرض اپنی اہلیت اور صلاحیت کے مطابق ممکنہ حد تک بہترین کارکردگی کے جوہر دکھانا ہونا چاہیے۔ ماضی میں کابینہ کے ہر رکن نے جانفشانی سے اپنے فرائض ادا کئے ہوتے تو ادارے ڈوبتے نہ ملک 92 ارب ڈالر کے قرضوں کا بوجھ لئے مالی و معاشی بدحالی کا شکار ہوتا۔ وطن عزیز میں بھاری مینڈیٹ کے حامل وزرائے اعظم کے سامنے بھی بعض منہ زور وزراء خود کو جوابدہ نہیں سمجھتے تھے۔ وزراء کی آپس میں اور وزیراعظم کے ساتھ بول چال بند ہونے کے دعوے اور اعترافات خود وزراء کرتے رہے۔ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو ملا کر بنائی گئی حکومت کی ہر صورت ان کو ساتھ رکھنے کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ عموماً انکی مرضی کی وزارتیں دی جاتی ہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ ایسی پارٹیوں کے تحفظات اور مطالبات ختم ہونے میں نہیں آتے۔ اتحادی پارٹیوں کے وزراء سے وزیراعظم کی طرف سے جوابدہی کی سرے سے روایت موجود نہیں رہی۔
گزشتہ سے پیوستہ حکومت کے دوران وزارت ریلوے کا بیڑا غرق کر دیا گیا مگر حکومتی پارٹی ریلوے کے وزیر کو اصلاح پر مائل نہ کرسکی۔ آج عمران خان حکومت کو محض چار پانچ ووٹوں کی برتری حاصل ہے جو کسی ایک پارٹی کے کھسک یا پھسل جانے سے مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے جیسا کہ آج ایم کیو ایم پاکستان کے حوالے سے صورتحال گھمبیر ہوتی نظر آرہی ہے۔ مگر وزیراعظم نے پہلے روز تمام وزراء کو ان سے وابستہ امیدوں سے آگاہ کر دیا تھا۔ بلاامتیاز اسکے کہ ارکان کابینہ کا تعلق حکومتی پارٹی سے ہے یا اتحادی پارٹیوں سے‘ ہر رکن نے ممکنہ حد تک بہترین اور وزیراعظم کے اطمینان کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تین ماہ بعد پھر وزارتوں کی جانچ پڑتال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے سو دنوں میں ایک آدھ چھٹی کی ہوگی‘ یہ انکی اپنے پروگرام پر عمل کیلئے کمٹمنٹ ہے۔ کابینہ کے ارکان بھی کم و بیش اسی عزم و ارادے سے کام کرینگے تو انکی وزارت قائم رہے گی اور حکومت اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں بھی کامیاب ہوسکے گی۔ اڑھائی تین ماہ میں وزرائ‘ مشیر اور دیگر عہدیدار پَر پُرزے نکالنے لگتے ہیں۔ کرپشن اور من پسند تقرر و تبادلوں کی خبریں سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں‘ عمران خان کڑے احتساب اور کرپشن کے خاتمے کا ایجنڈہ لے کر اقتدار میں آئے ہیں۔ کرپشن‘ بے ضابطگیوں پر زیروٹالرنس کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ 100 دن میں کس حد تک ڈلیور کرسکے‘ اس پر بحث ہو سکتی ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ سو دنوں میں کرپشن کا کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا‘ اس کا سادہ سا مطلب گورننس کا راست سمت میں ہونا ہے۔
گورننس کی سمت درست ہے‘ وزیراعظم اور وزراء اپنی صلاحیت اور استعداد سے بڑھ کر کام کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سے عوامی مسائل میں کوئی کمی آئی‘ عوام کو اس طرح کا ریلیف مل سکا جس کے حکومت نے وعدے اور دعوے کئے تھے۔اس معاملہ میں عوام کی اکثریت اور تحریک انصاف کے حامیوں کے بڑے حصے کی رائے بھی مثبت نظر نہیں آتی۔ بلاشبہ حکومت کے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ اِدھر ہلائی اُدھر عوامی مسائل حل ہوگئے‘ مہنگائی کا طوفان تھم گیا‘ عوام زندہ باد کے نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آئے۔ حکومت کو شروع دن سے اندرونی و بیرونی محاذوں پر مشکلات درپیش تھیں‘ نمایاں معیشت کی زبوں حالی تھی‘ کم و بیش 90‘ ارب ڈالر کے قرضوں سے تو حکومت کے سخت ترین مخالفین کو بھی اختلاف نہیں۔ عمران خان ان قرضوں سے نجات کی بات کرتے ہیں‘ ان میں اضافے کے ہرگز قائل نہیں۔ حکومت میں آتے ہی فوری ادائیگیوں کا سامنا تھا‘ اس کیلئے دوڑ دھوپ کرنی پڑی۔ عوام حکومت سے ریلیف اور وعدوں کی تکمیل کی توقع کررہے تھے مگر بجلی‘ گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ڈالر کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا‘ اس سے مہنگائی کے آنیوالے طوفان نے عوام کی چیخیں نکلوادیں۔ رہی سہی کسر ضمنی بجٹ میں کی گئی مہنگائی نے پوری کردی۔ حکومت کئی جواز پیش کرتی رہی مگر عوام شعور کی اس منزل تک نہیں پہنچے کہ حکومتوں کے فکرو فلسفے کو سمجھ سکیں اور پھر اپوزیشن کو ایسے حالات ’’حکومت‘‘ دے اور وہ لے۔ باامر مجبوری ہی سہی حکومت نے عوام کی منشاء کے برعکس اٹھائے اقدامات کا نتیجہ ضمنی الیکشن میں دیکھ لیا۔
عوام کو حکومت ریلیف دیگی تو وہ ساتھ رہیں گے‘ عام آدمی کو اس سے غرض نہیں کہ آپ نے وزراء کو لائن حاضر کردیا یا بری کارکردگی پر نکال دیا۔ موجودہ حکومت جیسی بااصول حکومتوں کا 20 پچیس سال تسلسل رہتا ہے تو عوام کی سوچ بدلنے کی امید ہے۔ جس کے تحت وہ ذاتی کے بجائے قومی مفادات کو ترجیح دینگے۔ عمران خان کا پاکستان کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل کرنے کا عزم و ارادہ یقیناً قوم سازی کا بھی ذریعہ ہے۔
اب حکومت کی مالی مشکلات کافی حد تک کم ہوچکی ہیں۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہے۔ پٹرولیم پر بے جا ٹیکسوں کیخلاف تحریک انصاف کی آواز توانا اور بلند ہوا کرتی تھی۔ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں اگرچہ معمولی ہی سہی‘ کمی ضرور کی ہے۔ اس سے مہنگائی تھم سکتی تھی مگر ڈالر کی قیمت میں شتربے مہار اضافے نے یہ امکان ختم کر دیا۔ حکومت سردست مہنگائی میں خاطرخواہ کمی کے اقدامات کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے۔ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں اور تابناک بھی ہے۔ وزیراعظم جس طرح اداروں اور کابینہ کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں‘ حالات اسی نہج پر استوار رہے تو ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان ترقی و خوشحالی کی منزل کے قریب تر ہوتا جائیگا۔ یہ اسی حکومت کا کریڈٹ ہے کہ امریکہ جو کل تک ڈومور کی دھمکیاں دیتا تھا‘ آج افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے پاکستان سے تعاون کی درخواست کررہا ہے۔ یہ سب مثبت پہلو اپنی جگہ مگر حکومت کیلئے فی الوقت عوام کو مطمئن کرنا پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔
کابینہ کے اسی طرح پرعزم ہونے سے حکومتی ایجنڈے کی تکمیل ممکن ہے
Dec 12, 2018