ہیلتھ ٹی وی ا ور گورنر سرور کی جیب میں تعویذ

میں ہر اس کام میں سر پھنسا دیتا ہوں جو نہ ہونے والا ہو۔ گورنر چودھری سرور کے ساتھ پالیسی ریسرچ کونسل کے ارکان کی ایک نشست ہوئی جس میں گورنر صاحب نے ڈاکٹر محمودشوکت کی ایک تجویز کو سراہا کہ پی ٹی وی ا ور نجی چینلز پر صحت کے بارے میں پروگرام شروع کئے جائیں۔ گورنر صاحب نے انہیں اس پلان کی مزید تفصیل سمجھنے کے لئے پیرکی سہ پہر مدعو کیاا ورساتھ مجھے بھی۔یہ انتہائی سرد دن تھا اور دسمبر کا پہلا ٹھٹھرتا موسم لاہور پر نازل ہوا تھا۔میں تو وقت مقررہ سے پہلے گورنر ہائوس پہنچ گیا اور بالائی ہال میں بیٹھا مزید ٹھٹھرتا رہا، گرین ٹی کا ایک کپ میرا کچھ نہ بگاڑ سکا، کمر کی درد بڑھ رہی تھی اور ٹانگوں میں سوجن سی ہو رہی تھی،یکا یک کسی طرف سے وہاں گورنر صاحب تشریف لائے اور سلام دعا لے کر ایک گروپ کو ساتھ لے کر کہیں میٹنگ کے لیئے چلے گئے۔ ابھی ایک گروہ اور بھی بیٹھا تھا، میںنے گورنر صاحب کو بتایا کہ میرا ٹائم ابھی شروع نہیں ہو ا ور دوسرے ساتھی بھی تشریف نہیں لائے گورنر صاحب نے کہا کہ کوئی بات نہیںمجھے بھی جلدی نہیں ہے۔ آرام سے گفتگو کرتے ہیں۔ وقت مقررہ پر ڈاکٹر محمود شوکت وہاں پہنچ گئے تو میںنے گورنر صاحب کے اسٹاف سے کہا کہ اب مقررہ وقت ہو گیا ، اور سردی کی وجہ سے میرے لئے مزید انتظار ممکن نہیں،اس پر ہم دونوں کو کہیں اندر بلا لیا گیا، گورنر صاحب پہلے ہی ایک گروپ سے میٹنگ کر رہے تھے،۔ مگر اسے درمیان میں چھوڑ کر شاید میری حالت پر رحم فرماتے ہوئے ہمیں ایک کونے میں لے کے بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر محمود شوکت نے ماحول کو بھانپ کر ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنی گفتگو شروع کردی ا ور ہیلتھ ٹی وی کے پلان کی تفصیلات بتائیں، ابھی بات ادھوری ہی تھی کہ کسی صاحب نے آوازہ لگایا سر نیکسٹ میٹنگ۔ ہماری بات وہیں کی وہیں رہ گئی مگر میںنے جلدی سے ایک تعویذ گورنر صاحب کی جیب میں ڈال دیا اور ان سے کہا کہ وہ اسے صبح سویرے پڑھ کر سینے پر پانچ بار پھونک مار لیا کریں۔ اللہ نے چاہا تو حاسدین خود اپنی آگ میں جل کر راکھ ہو جائیں گے۔
اب سنیں کہ ہیلتھ ٹی وی کی تجویز ہے کیا۔ میں ساتھ ساتھ سنتا رہا تھا اور یہ بڑی دلچسپ تجویز ہے۔ اس پر عمل ہو جائے تو میرا خیال ہے کہ سارے سیاسی ٹاک شوز پیچھے رہ جائیں اور ا س کی ریٹنگ کی گر دکو بھی نہ پہنچ سکیں۔ بس شرط یہ ہے کہ اسے پورے پروفیشنل انداز میں چلایا جائے اورا س پرعاملوں ، حکیموںاور تعویذ گنڈے والوں کا غلبہ نہ ہو جائے۔
آپ یقین نہیں کریں گے کہ پچھلے دنوں جیسے ہی موسم یکا یک سرد ہوا تو نزلہ کھانسی گلے کے درد نے پائوں پسار لئے۔ میں بھی صاحب فراش تھا۔ اسی ہنگام میں ایک دن ٹی وی لگایا اور کوئی صاحب کہہ رہے تھے کہ میں پنجاب کے محکمہ صحت کا فلاں عہدیدار ہوں، آج پوری دنیا میںنمونیہ ڈے منایا جا رہا ہے اورآپ اگر کچھ احتیاط ملحوط رکھیں تو اس موذی مرض سے محفوظ رہ سکتے ہیں میںنے بڑے غور سے ان صاحب کا مختصر پروگرام سنا ۔ یہ ایک اشتہار تھا اس لئے زیادہ تفصیل اس میںنہ تھی ۔مجھے شبہ ہوا کہ مجھے نمونیہ نے آن لیا ہے اور میں نے کسی ہسپتال جانے کی تیاری کی تاکہ ابتدائی مرحلے میںبیماری پر قابو پایا جاسکے۔ اتفاق سے اگلے دن پھر سے ایک خاص بیماری کا دن تھا اور پھر اسی طرح کااشتہار نما اعلان بار بار سننے کو ملا۔ میںنے کبھی کسی ٹاک شو میں اس قدر دلچسپی نہیں لی جتنی مجھے اس چھوٹے سے اعلان میں دلچسپی ہو گئی تھی ، اب اگر یہی پروگرام باقاعدہ پلان کیا جاتا اور چند ڈاکٹر صاحبان سے کوئی اینکر صاحب گفتگو فرما رہے ہوتے تو یقین سے کہتا ہوں کہ یہ پروگرام ہٹ ہو جاتا۔ میں کامران شاہد، حامد میرا ور جاوید چودھری کو مشورہ دیتا ہوں کہ اگر وہ ہفتے میں ایک بار صحت کے کسی مسئلے پر ماہرین سے ویسے ہی پروفیشنل انداز میں بات کریںجس طرح وہ پی ٹی آئی کے سو دنوں کی بات کرتے ہیں یا زرداری صاحب کے جعلی اکاؤنٹوں کی خبر نکالتے ہیں یا میاںنواز شریف کی پیشی پر عدالت ا وران کے درمیان مکالموں کی تشہیر کرتے ہیں تو ان کا صحت کے بار ے میں پروگرام زیادہ دلچسپی سے دیکھا جائے گا،۔ رہی بات اس کے لئے سپانسر ڈھونڈنے کی ۔ اس کے لئے مارکیٹنگ ٹیم کو کسی کے پا س جانے کی حاجت نہیں ہو گی، فارما سوٹیکل کمپنیاں خود چل کے آئیں گی۔ اب کون ہے جسے شوگر نہیں، بلڈ پریشر نہیں،ٹانگوں یا کمر کا درد نہیں، عمر کے حساب سے یاددا شت کم نہیں ہو رہی ۔ اور گوڈے گٹے جواب نہیں دے رہے۔ہیپاٹائٹس عام بیماری ہے اور جان لے لیتی ہے۔ گردے گل جاتے ہیں، پیشاب رک رک کر آتا ہے۔سردرد ہے کہ جاتا ہی نہیں ، آدھے سرکا درد لاحق ہے۔ اور میںنے کینسر جیسے موذی مرض کا تو نام ہی نہیں لیا۔ اس کا نام لیتے ہوئے خوف کی ایک لہر ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ جاتی ہے ۔ پرسوں میر اپوتا اسکول کاسبق یاد کررہا تھا ،۔ پوچھنے لگا یہ جذام ا ور کوڑھ کی بیماریاں کیا ہوتی ہیں۔مجھے رانا نذالرحمن نے بتایا کہ ان کا پیٹ کئی دنوں سے خراب تھا، وہ گھر کے قریب ایک نجی ہسپتال میں گئے۔ان کی عمر ماشااللہ بانوے برس کی تھی ۔ ہسپتال والوںنے کہا کہ پہلے تو آپ کے دل کا بائی پاس آپریشن ہو گا پھر پیٹ کامرض خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ میری ا سی سالہ بھابھی کو سانس کی تکلیف تھی۔ ان کے گلے پھولے ہوئے تھے، ایک نجی ہسپتال میں گئے تو حکم ہوا کہ ستر لاکھ روپے پیشگی جمع کرادو ۔ گلے اور دل کا بائی پاس کا آپریشن راتوں رات کرنا پڑے گا۔میرے بھتیجے کچھ کچھ ا س ہسپتال کی نفسیات سے واقف تھے،۔ انہوںنے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ہم تو تین مرلے کے ایک مکان میں رہتے ہیںجسے بیچ بھی دیں تو ستر لاکھ روپے نہیں مل سکتے۔ اور وہ اپنی والدہ کو اٹھا کر ایک ا ورہسپتال میں لے گئے جہاں صرف سات ہزار میںان کے گلے کا ایک چھوٹا سا آپریشن ہوا، اب وہ خیر سے بھاگتی پھرتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہیلتھ ٹی وی پر لوگوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ کس بیماری کی کیا علامات ہیں اور اس کے علاج کے لئے کونسا ہسپتال موزوں رہے گا، یہ جو لوٹ کھسوٹ مچی ہے، اس کا تدارک بھی ہو جائے گا، لوٹ کھسوٹ کی بڑی وجہ لوگوں کی جہالت ہے یا جلد بازی یا دولت کی فراوانی۔لوگوں کو کوئی سچ بتانے والا ہو گا تو اس لوٹ کھسوٹ کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ہیلتھ ٹی وی اصل میںعوام کا شعور بیدار کرنے کا ذریعہ ثابت ہو گا۔ یہ آگہی دے گا۔لوگوں کو گھبراہٹ سے بچانے میں مد د گار ثابت ہو گا، ہیلتھ ٹی وی آپ کو بتائے گا کہ کونسی بیماری کا علاج گھر میں ٹوٹکوں سے کیا جاسکتا ہے،۔ کونسی بیماری کے لئے محلے کے ڈاکٹر سے رجوع کرنا مناسب رہے گا اور کون سے ایسے پیچیدہ امراض ہیں جن میں آپ کسی میگا ہسپتال کا رخ کریں ، آج کل تونزلہ زکام کے مریضوں نے بڑے ہسپتالوں پر یلغار کر رکھی ہے۔ ڈاکٹر ان سے نہیں نمٹ پاتے اور پیچیدہ مرض کے شکار لوگ ڈاکٹر کی پوری توجہ سے محروم رہتے ہیں۔بعض بیماریاں ایسی ہیں جن میں ذرا سی احتیاط برت لی جائے تو ان سے بچا جا سکتا ہے۔ ہیلتھ ٹی وی آپ کو بتائے گا کہ پانی ابال کر پیا کریں۔ گلے سڑے پھل نہ کھائیں۔ باسی کھانے پیٹ میں نہ ڈالیں۔بلکہ ڈسٹ بن میں ڈالیں۔ جنک فوڈ سے پرہیز کریں اور ہوٹلنگ کے شوق پر قابو پائیں ۔ گھر میں جو کچھ پک سکتاہے ، وہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے کھانے سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ماں کے ہاتھوں پکی ہوئی تازہ گرم گرم روٹی کا اپنا مزہ ہے۔
گورنر صاحب سے ہمیں کوئی تین چار منٹ ملے ہوں گے۔ پھر وہ کسی اگلے گروہ کو بھگتانے چلے گئے، مگر انہوںنے ہم سے وعدہ ضرور کیا کہ و ہ وزیر اطلاعات فوادچودھری سے بات کریں گے ا ور نجی ٹی وی چینلز کو بھی اس طرف راغب کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ گورنر سرور کی ذہانت ہے یا روز کاتجربہ کہ وہ بات کو جلدی سمجھ جاتے ہیں ، اس لئے انہیں لمبی کہانی سننے سے دلچسپی نہیں ہوتی ۔ الف لیلہ سننے لگ جائیں تو وہ ایک دن میں دو چار ملاقاتیں بھی نہ کر پائیں جبکہ میرااندازہ ہے کہ وہ ملاقاتوں کی روزانہ سنچری تو مکمل کر ہی لیتے ہوں گے، چلئے لوگوں کا کتھارس ہو جاتا ہے ۔لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی تو ان کا غم گسار ہے ، کوئی تو ان کی نبض پر ہاتھ رکھنے والا ہے۔ بہر حال میںنے ان کی جیب میں جو تعویذ ڈالا تھا، وہ اسے نہ بھولیں اور پانچ روز تک صبح کا م شروع کرنے سے پہلے اسے پڑھ کر سینے پر پھونک مار لیا کریں ۔حاسد اپنی آگ میں جل مریں گے۔اور ان کی اپنی ہر مراد پوری ہو گی ۔آ ٓخر وہ اس فقیر کی دعا لے کر تجربہ تو کریں۔

ای پیپر دی نیشن