کیا ایسا ہو سکتا ہے؟؟؟؟

رضا صاحب میں سٹیڈیم سے کافی دور کھڑا ہوں چیک ہوسٹ پر پولیس والے اندر نہیں آنے دے رہے نذیر سے کہیں کہ میرا ایکریڈیشن کارڈ ہی یہاں دے جائے یا کسی کے ہاتھ بھجوا دیں میں صبح ہی لاہور سے پہنچا ہوں اس لیے پہلے کارڈ نہیں لے سکا۔ ذرا جلدی بھجوائیے گا۔ اچھا حافظ صاحب میں کچھ کرتا ہوں بہت پھنسے ہوئے ہیں، کام بہت زیادہ ہے،رش بھی ہے۔ ہمارے پاس یہاں سٹاف بھی ذرا کم ہے کیونکہ کراچی میں ایمرجنگ ٹورنامنٹ کے مقابلے بھی ہو رہے ہیں۔ لاہور سے بورڈ کا سٹاف وہاں بھی گیا ہوا ہے۔ چونکہ ملتان میں ہونیوالے ٹونٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ میں کام زیادہ تھا اس لیے میں یہاں خود آیا ہوا ہوں۔ ساتھ ہی رضا راشد نے پوچھا باہر کی کیا صورتحال ہے اندر تو سٹیڈیم بھرنے والا ہے۔ ہم نے جواب دیا بڑی تعداد میں شائقین کرکٹ سٹیڈیم کی طرف آ رہے ہیں۔رضا راشد کہنے لگے آپ دیکھ رہے ہونگے کہ کراوڈ کتنا زیادہ ہے۔ اسی طرح اندر بھی کام کے یہی حالات ہیں۔شکیل خان اور بھٹی کراچی میں ہیں میں نذیر سے کہتا ہوں کہ وہ کارڈ آپ تک پہنچا دے۔ رضا کا فون بند ہوا ہم نے ڈائریکٹر ڈومیسٹک ہارون رشید کو فون کیا کہ پوچھیں تو یہ کیا ہو گیا ہے۔ قومی ٹونٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ اور اتنی عوام آخر ماجرا کیا ہے۔ انکا فون مسلسل دوسری لائن پر مصروف تھا۔ کافی دفعہ فون کیا لیکن ہارون مسلسل کسی سے بات کر رہے تھے۔ہم نذیر احمد کے انتظار میں کھڑے شائقین کے جوش و خروش سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ہارون رشید کا فون آ گیا۔ہارون صاحب اتنی لمبی کال، کہنے لگے چیئرمین پی سی بی احسان مانی کا فون تھا انہیں ایونٹ کے حوالے سے اپڈیٹ کر رہا تھا۔ انہیں لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھنا پڑتا ہے بہت نظر رکھتے اور دلچسپی لیتے ہیں۔ چونکہ کراچی میں بھی مصروفیت ہے ذاکر خان اور انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ کا سٹاف وہاں ایمرجنگ ٹورنامنٹ کے لیے موجود ہے آپ دیکھ رہے ہونگے کہ کتنے شاندار انتظامات ہیں۔ اس حوالے سے بھی چیئرمین صاحب کو بتا رہا تھا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی ہو رہی ہے ہم کوئی کمی نہیں چھوڑنا چاہتے تاکہ بیرونی دنیا کو اچھا پیغام جائے اور ملک میں جلد از جلد مکمل طور پر بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو۔ وہاں بھی میچز بڑے اچھے ماحول میں ہو رہے ہیں ہم نے غیر ملکی ٹیموں کو بہترین سہولیات اور ماحول فراہم کیا ہے بڑی اچھی رپورٹس آ رہی ہیں۔ تمام ٹیموں کے کھلاڑی اور آفیشلز بہت خوش ہیں۔ یہاں ملتان کے کراوڈ نے تو کمال کر دیا ہے ہماری توقع سے بہت زیادہ لوگ سٹیڈیم آئے ہیں۔ ہارون صاحب یہ کیا کر دیا آپ نے ایسے انتظامات کیے کہ نیشنل ٹونٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ میں سٹیڈیم شائقین سے بھر گیا ہے۔ کہنے لگے بس اسی کام میں لگا ہوا تھا۔ ہر وقت یہی کوشش ہوتی ہے کہ قومی ٹورنامنٹ کو بہترین طریقے سے کیا جائے۔ ہماری مارکیٹنگ ٹیم نے بھی اس کے لیے بہت کام کیا ہے انکو بھی اسکا کریڈٹ جاتا ہے۔ قومی ٹورنامنٹس کے لیے سپانسرز کو لانا کتنا مشکل ہے لیکن انہوں نے ہدف کو حاصل کیا ہے۔ ایونٹ کی بہت اچھی تشہیر کی گئی ہے۔ شائقین کرکٹ کو متحرک کرنے اور انہیں سٹیڈیم تک لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے گئے ہیں ہمیں اس میں کامیابی بھی ملی ہے۔ کراچی کی طرح نیشنل سلیکٹرز بھی یہاں موجود ہیں۔ انضمام الحق اور وسیم حیدر کی موجودگی میں نوجوانوں کے لیے بہت اچھا موقع ہے کہ وہ بہتر کھیل پیش کر کے انکی توجہ حاصل کرتے ہوئے قومی ٹیم کی طرف پیشقدمی کریں۔ یہ میچز ٹی وی پر براہ راست دکھائے جا رہے ہیں۔ ریڈیو کمنٹری بھی ہو رہی ہے۔ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔ ارے آپ سٹیڈیم نہیں پہنچے ابھی کل مجھے کسی نے بتایا تھا کہ آپ بھی ملتان آ رہے ہیں۔ میں پہنچ گیا ہوں سٹیڈیم سے دور ہوں ذرا اپنے ایکریڈیشن کارڈ کا انتظار کر رہا ہوں۔ہارون صاحب کیا اس ایونٹ میں اچھا پرفارم کرنیوالوں کو قومی ٹیم میں جگہ ملے گی۔
ہارون رشید کہنے لگے پھر چیئرمین صاحب کا فون آ رہا ہے آپ اندر آئیں پھر بات ہوتی ہے۔ہم اجلے اجلے، ہنستے مسکراتے، قہقہے اور نعرے لگاتے ہر عمر کے شائقین کو سٹیڈیم تک جاتے دیکھ رہے تھے۔ یہ بہت خوش کن منظر تھا ملک میں امن و امان کی صورتحال بحال ہونے کے بعد حالات معمول پر آ رہے تھے۔ پاکستان سپر لیگ کے آغاز اور پھر اس کے ذریعے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی مرحلہ وار بحالی کے بعد شائقین کا ملکی سطح کے مقابلوں میں دلچسپی کا اظہار بھی خوش آئند ہے۔ کرکٹ بورڈ نے بھی کمال منصوبہ بندی سے ایک عرصے سے اچھی کرکٹ سے محروم شائقین کو سٹیڈیم تک لانے کا بندوبست کیا ہے۔ اچانک خیال آیا کہ نذیر سے پوچھوں ابھی کارڈ لیکر نہیں پہنچا اس سے پہلے کہ نذیر کارڈ لیکر پہنچتا۔ موبائل الارم کے بجنے سے آنکھ کھل گئی۔ نہ ایکریڈیشن کارڈ پہنچا نہ ہم ملتان سٹیڈیم میں ٹونٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ کی کوریج کے لیے جا سکے۔ایک طرف ملتان میں ٹونٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ دوسری طرف کراچی میں ایمرجنگ کپ کے مقابلے جاری ہیں دونوں شہروں سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ تو اچھی نہیں ہیں لیکن خواب تو قید نہیں کیے جاسکتے ان پر تو کسی کا زور نہیں۔کیا ایسے خوابوں کو تعبیر مل سکتی ہے کیا یہ حقیقت میں بدل سکتے ہیں؟؟؟؟

حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس

ای پیپر دی نیشن