کئی دنوں سے ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کی بیماری کی خبریں آرہی تھیں اور مجھے اُنکی صحت کی بے حد فکر لاحق تھی۔ گھر فون کیا تو اُنکی بیگم سے رابطہ نہ ہوسکا آخر میں نے خاور نعیم ہاشمی صاحب کو فون ملایا تو اُن سے معلوم ہوا کہ وہ بحریہ ٹائون سرجری کے بعد Lungs Infection میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ شاید اُنہیں اُسی ہسپتال سے انفیکشن ہوئی۔ اب وہ ڈاکٹرزہسپتال میں شفٹ ہوچکے ہیں۔ اُسی وقت ارادہ کیا کہ کچھ بھی ہو آج اُن کی عیادت کرنے ضرور جائوں گی۔ اپنے شوہر کے ساتھ ہسپتال پہنچی اور ICU میں اُنہیں نالیوں سے جکڑا دیکھ کر دل کو بے حد تکلیف محسوس ہورہی تھی۔ ایک بار تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے تھے۔ پھر اپنے آنسو چھپا کر اُنہیں حوصلہ دیا۔ اُنکی پریشان بیوی اور انکے داماد کو حوصلہ دیا اور کچھ دیر اُنکے ساتھ بیٹھ کر بوجھل ذہن کے ساتھ وہاں سے نکلی اور گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔ گاڑی رمکے رمکے چلنے لگی اور میں سوچوں میں کئی سال پیچھے چل دی۔ مجھے وہی زمانہ یاد آرہا تھا جب میرے والد صوفی گلزار احمد کا تبادلہ بطور پرنسپل میانوالی ہوا تھا۔ میری والدہ اور ہم بمعہ میرے دادا کے سب پریشان تھے کہ اب کیا ہوگا۔ میرے والد اُس وقت ہرنیہ کے مریض تھے۔ میرے والدکو ہر صورت وہاں Join کرنا تھا کیونکہ اُنکی پروموشن کا معاملہ تھا۔ اُنکی گریڈ19 میں ترقی ہوئی تھی۔ اُس وقت پنجاب کے وزیرتعلیم غلام نبی صاحب تھے جو امرتسر میں دادا کی گود میں کھیلے تھے۔ میری والدہ سمیت سب دادا جان سے بہت ڈرتے تھے اورمیں اس پر بڑی پریشان ہوتی کہ داداجان تو بہت اچھے ہیں تو سب ڈرتے کیوں ہیں۔ خیر اُن سے ڈرنے کی وجہ سے اُن کی یہ بات میں نے بڑوں سے سنی کہ آخر غلام نبی کو پتا تھا پھر اُنکی ٹرانسفر میانوالی کیوں کی… ان سب کے ڈرنے کی وجہ سے یہی بات میں نے داداجان کو چپ کے سے سنا دی تو وہ مجھ سے غصے میں کہنے لگے میں اُسے کچھ نہیں کہوں گا کوئی سفارش نہیں کروں گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ صوفی گلزار میرا بیٹا ہے۔ میں نے یہی بات اپنی والدہ جو پہلے سے بہت پریشان تھیں اور باقی سب کے گوش گزار کردی۔ مگر داداجان نے باقاعدہ بارات کی صورت میں اپنے تمام ملازمین اور کچھ ذمہ دار اشخاص کو ماڈی انڈس پر بٹھا کر بمعہ میرے والد کے میانوالی کالج بھیج دیا اور ساتھ ہی اپنے بیٹے اور ساتھیوں کو تاکید کی کہ پہنچتے ہی فون پر اپنی خیریت کی اطلاع ضرور دینا۔ میانوالی بوائز کالج شہر سے بہت دور میانوالی جیل کے بالمقابل تھا۔ کالج وسیع و عریض علاقے میں پھیلا تھا۔ کالج کے اردگرد ہری بھری فصلیں، گائے بھینسیں، کھیت کھلیان اور اُن میں کام کرتے کسان، گھاس چرتی خوبصورت بکریاں مجھے بہت fascinate کرتے تھے۔ پرنسپل کی رہائش کالج کے بالکل ساتھ میں ہی تھی اس لیے جب بھی میرے والد واپس گھر آتے تو بہت سے معاملات گھر میں بھی حل کرتے نظر آتے۔ ایک دن والد صاحب کے گھر پہنچتے ہی ملازم نے آکر بتایا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب آئے ہیں۔ والد صاحب سے ملاقات ہوئی کچھ دیر میں عصر کی اذان ہوئی تو اُنہوں نے گھر کے صحن میں سردیوں کی دھوپ میں ہی مصلیٰ بچھایا اور نماز ادا کی۔ یہ نیازی صاحب پگڑی کے بغیر والے نیازی صاحب تھے۔ سرخ وسفید لمبے گھنے کالے بالوں والے نیازی صاحب۔ میں نے محسوس کیا کہ والد صاحب اکثر ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب پر غصہ کرتے نظر آتے اور ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کی Explanation Call کی ہوتی۔ اُسکی وجہ ڈاکٹر صاحب کی لاہور سے محبت تھی۔ وہ اکثر لاہور چلے جاتے اور کلاس نہ لینے کی Complaint پرنسپل تک پہنچ جاتی۔ نیازی صاحب کی پہلی محبت شاید گورنمنٹ کالج اور لاہور ہی رہی اور اسی لیے آخرکار اُنہوں نے لاہور آکر ہی دم لیا اور ساری عمر علم کی آبیاری کرتے رہے۔ اجمل نیازی صاحب انتہائی شفیق اور محبت کرنیوالے انسان ہیں۔ اُن سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ ہمیشہ اپنی محبت کی کہانی خوشی سے اور اپنی شادی کا واقعہ دکھ ہی سے بیان کرتے رہے مگر اُنہوں نے ان سب خوشیوں اور دکھوں کے بیچ بڑی بھرپور زندگی گزاری ہے اور بے نیازی کے بغیر بڑی محنت لگن اور سچائی سے اپنا کالم ’’بے نیازیاں‘‘ تحریر کرتے رہے ہیں۔ آج بھی عوام اُنکے کالم اور اُن کی دیوانی ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ ستمبر کے اوائل میں اچانک اُن کا بڑے عرصہ کے بعد فون آیا تو مجھے کچھ تشویش ہوئی اُن کی باتوں سے مجھے محسوس ہورہا تھا کہ وہ شدید Anxiety میں ہیں۔ ان دن کہنے لگے میرا جی چاہتا ہے میں تمہارے گھر آئوں تمہاری پریوں سے بھی ملوں اور کھانا بھی کھائوں۔ میں نے فوراً اُن سے آنے کا وعدہ لیا اور کھانے پر بھی مدعو کیا مگر اس کی نوبت ہی کہاں آئی وہ بیمار ہوکر ہسپتال پہنچ گئے۔ میری دعا ہے کہ اللہ اُنہیں صحت مند لمبی زندگی عطا کریں۔ ملک کے شاعر ادیب تو قوم و ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اُن کی نگہداشت کرنا حکومت کا فرض بنتا ہے۔ ڈاکٹر اجمل صاحب کی بیگم ڈاکٹرز ہسپتال میں باربار یہ کہہ رہی تھیں کہ اُنہیں پنجاب یونیورسٹی میں مجیدنظامی chair بھی مل گئی تھی مگر اجمل نیازی بیمار پڑگئے۔ ظاہر ہے ہمارے اُستاد ہمارے ادیب اور شاعر (کچھ کو چھوڑ کر) کہاں اس قدر خوشحال ہیں کہ کئی کئی دن وہ ڈاکٹرز ہسپتال جیسے مہنگے VIP ہسپتال میں قیام اور علاج کروا سکیں۔ وہاں تو مریض اُن کیلئے پیسے نکالنے کی ATM ہے جو ہر دم پیسے بناتی ہے۔ یہی حال ملک کے معروف رومانی شاعر جناب ناصرزیدی کا ہے کئی سالوں سے اُنہیں ایک کے بعد دوسری بیماری نے گھیر رکھا ہے۔ اُن کی ہمت ہے کہ اُنہوں نے لاکھوں روپے کس طرح اپنی صحت کیلئے خرچ کیے ہیں۔ ناصر زیدی صاحب اس وقت جناح ہسپتال کے میڈیکل یونٹ نمبر 1 میں زیرعلاج ہیں۔ کچھ دن پہلے اُن کی عیادت کی اور اُن کی خیریت دریافت کی اُن کو اس کسمپرسی میں دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ وہ اس وقت بھی ادب لطیف کے مدیر ہیں۔ اس بیماری اور تنگ حالات میں بھی ادب کی خدمت میں جٹے ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے اچھے وقتوں میں کتنے ہی اچھے منسٹروں کو کہہ کر بہت سے ادیب اور شاعروں کی اُن سے مدد کروائی مگر آج جب اُن پر وقت پڑا ہے تو کوئی بھی پرسانِ حال نہیں۔ اُن کی دوائیوں کا خرچہ اُن کی آمدن سے کہیں زیادہ ہے اور پھر آجکل تمام دوائیوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ حکومت نے کس کس کی قیمت کو بڑھایا ہے کیا عرض کریں۔ ناصرزیدی جو صدر کے Speech Writer بھی رہ چکے ہیں اُنہوں نے 19ویں گریڈ میں کام کیا۔ اُن میں قابلیت کی کوئی کمی نہیں۔ اس زمانے میں واحد شاعر ہیں جن کا شاعری میں اپنا رنگ و آہنگ ہے۔ کئی شاعر اُن سے اپنی شاعری کی کتابیں لکھوا چکے ہیں اور پرائڈآف پرفارمنس اور تمغے بھی لے چکے ہیں مگر حکومت نے اس عمر میں بھی اُنہیں ادب کی خدمت پر کچھ بھی نہیں نوازا جس کا افسوس ہے۔ میں وزیراعظم سے اپیل کرتی ہوں کہ ہمارے شاعر، ادیبوں کیلئے ایک خاص فنڈز مقرر کریں اور اُنکے وظیفے لگائیں تاکہ وہ اپنی آخری عمر میں محتاجی کی زندگی نہ گزاریں۔