عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت پہلے دن سے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ قومی اسمبلی میں عددی لحاظ سے چند ووٹروں پر کھڑی ہے۔ بڑی اور تجربہ کار اپوزیشن کے ہوتے ہوئے چند کے علاوہ اکثریتی حکومتی اراکین حکومتی امور سے نابلد نظر آتے ہیں۔ حقیقتاً ایک دیانتدار لیکن کم تجربے والی حکومت ہے جس کی اپوزیشن بہت جاندار ، شاطر اور سیاسی شطرنج سے واقف ہے۔ اپوزیشن ارکان کی اکثریت حکومت کے اہم عہدوں اور ملکی قسمت کے فیصلوں میں شامل رہے ہیں ان کی بری حکمرانی اور کرپشن کی وجہ سے ملک اس وقت نازک مقام پر پہنچ چکا ہے۔ ملکی معیشت زوال کا شکار ہے۔
عمران خان نے اندازا لگائے بغیر عوام کو سہانے خواب دکھائے تھے اور نوجوانوں اور پاکستانی عوام نے بھی ان سے امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں لیکن اب وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ جیلوں میں ڈالنے کے باوجود سابقہ حکمرانوں سے قابل قدر رقم وصول نہ کی جا چکی ہے۔ اس لئے حکومت کو ایک لحاظ سے بڑے مسائل کا سامنا ہے جس میں اولین اکانومی خارجہ پالیسی اور مسئلہ کشمیر سر فہرست ہیں۔ جن پر دانشمندانہ فیصلوں سے ہی عوام اور ملک کو بحرانوں سے نکالا جا سکتا ہے۔
عمران خان جو کہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ مشکل میں اچھا کھیل کھیل لیتے ہیں۔ پاکستان کو کرپشن اور سفارش سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ نوجوان طبقہ کو ملک کے ہر فیصلوں میں متحرک کردار دینا چاہتے ہیں تا کہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہو سکے۔ یہی وہ طبقہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ دوسرا وہ طبقہ ہے جو کئی سالوں سے عوام کا خون چوس رہا ہے۔ اب پھر نقب لگانے کے چکر میں ہے۔ حکومتی امور میں عمران خان کو ملکی اداروں کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔
حکومت کے علاوہ پارٹی کی سطح پر بھی تنظیم سازی کا سلسلہ کافی عرصہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ حکومت کو تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ ہو چکا ہے اب عمران خان کے حکم پر چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی نے دلچسپی لے کر تنظیم نو شروع کی ہے۔
سنٹر پنجاب میں اعجاز احمد چوہدری کو صدر بنا کر اہم ذمہ داری دی گئی ہے وہ منجھے ہوئے سیاسی ورکر ہیں۔ انہوں نے طالب علمی کے زمانے سے سیاست کا آغاز کیا۔ اسلامی جمعیت طلباء اور پھر جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ملکی سیاست میں متحرک اور جاندار کردار ادا کیا۔ وہ تقریباً دو دہائیوں سے عمران خان کے دست راز ہیں اور قدم با قدم ساتھ چل رہے ہیں۔ کبھی حکومتی مراعات اور عہدے کا لالچ نہیں کیا ۔ انہوں نے پنجاب کی ذمہ داری چیلنج سمجھ کر قبول کی اور قلیل عرصے میں پنجاب کی تنظیموں کو عملی میدان میں متحرک کر دیا۔ لاہور شہر جو کہ اپنی اہمیت اور سیاسی تاریخوں سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔ اس کو شمال اور جنوب دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ لاہور سٹی کے صدر کی ذمہ داری غلام محی الدین دیوان اور جنرل سیکرٹری کی مہر واجد عظیم کو دی گئی۔ غلام محی الدین دیوان کشمیری سپوت ہیں۔
زندہ دلان لاہور کی شان ہیں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مدد اور محنت سے کاروبار سیاست اور خدمت میں اپنا نام بنایا ہے۔ مسلم لیگ کی صوبائی اور قومی حکومتوں کی موجودگی میں چار بار لاہور سے ممبر کشمیر اسمبلی تین بار وزیر اور مشیر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی سے کیا۔ لیکن قیادت کے رویے اور میثاق جمہوریت کو نا پسند کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ حالانکہ میاں برادران کی طرف سے کشمیر کی تین نشستیں بھاری ترقیاتی فنڈ اور مراعات کو بھی ٹھکرا دیا۔
تحریک انصاف میں شمولیت کو روکنے کے لئے اس وقت پنجاب کے صدر منظور وٹو اور دیگر قیادت نے بہت کوشش کی۔ لیکن وہ عمران خان کے ویثرن حب الوطنی اور کرپشن کے خلاف جذبے سے متاثر تھے۔ آزاد کشمیر میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو صدر اور غلام محی الدین دیوان کو جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ انہوں نے آزاد کشمیر کے بڑے سیاستدانوں اور کارکنوں کو پی ٹی آئی میں شامل کرایا۔
عمران خان کے حکم پر NA-124 سے ضمنی انتخاب میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مقابل حصہ لیا۔ لیکن مقامی تنظیم نہ ہونے کی وجہ اور پسند نہ پسند کا شکار ہوئے۔ اس کے باوجود بھاری ووٹ حاصل کیے ۔ آپ سے آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری واپس لے کر لاہور کی صدارت کی اہم ذمہ داری دی گئی ہے۔ درد دل رکھنے والے انسان ہیں ان کے دروازے کارکنوں اور اپنے پرائے سب کے لئے کھلے رہتے ہیں۔ لاہور سٹی کے لئے سیکرٹری جنرل کے مہر واجد عظیم کا تعلق سیاسی گھرانے سے ہے۔
عمران خان کے قافلے میں عرصے سے شامل ہیں ۔ دو بار صوبائی اور ایک بار قومی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لے چکے ہیں۔ وہ لاہور کی پہچان ہیں ان کا ڈیرہ بھی دن رات لوگوں اور کارکنوں کی خدمت کے لئے کھلا رہتا ہے۔ بہرحال آنے والے بلدیاتی الیکشن تحریک انصاف لاہور کے صدر ، سیکرٹری جنرل اور دیگر عہدیداراوں کے لئے چیلنج ہے۔ کیونکہ دس سال بالترتیب حکومت میں رہنے والے میاں برادران کے ذاتی دلچسپی ، محنت اور رابطہ مہم سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا مضبوط نیٹ ورک آج بھی موجود ہے۔ اس حصار کو توڑنے اور واضح کامیابی کے لئے پی ٹی آئی کے عہدیداروں کو انتھک محنت ، رابطہ مہم چلانی ہو گی۔ اور حکومت کو ورکروں سمیت عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنا جن میں صحت ، تعلیم ، بے روزگاری مہنگائی جیسے جن کو بوتل میں بند کرنا عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت کے لئے معجزہ ہے۔