لاہور(تجزیہ ندیم بسرا) پنجاب حکومت کی وزارت صحت کی کمزرو پالیسیاں وکلاء اور ڈاکٹرز کے درمیان معاملات الجھائو کی طرف لے گئے جس کے نتیجے میں پر تشدد ہنگامہ اور لڑائی جھگڑا ہسپتال کی ایمرجنسی تک جا پہنچا اور قیمتی جانوںکا ضیاع بھی ہوا، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں تین ہفتے قبل شروع ہونیوالی ڈاکٹرز اور وکلاء کی لڑائی کو ختم کرنے میں وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کا کردار نظر نہیںآیا اور بات ہسپتال کی ایمرجنسی پر آکر ختم ہوئی، وکلاء اور ڈاکٹرز کے درمیان کشیدگی بڑھانے میں سوشل میڈیا کا اہم کردار رہا جس نے معاملے کو ٹھنڈا نہ پڑنے دیا، گزشتہ روز کی لڑائی ایک فریق کے سوچے سمجھے منصوبے کی نشاندہی کرتی ہے، وزارت صحت کی کمزور پالیسیاں پنجاب کے اندر ریاست کی کمزور گرفت کو ظاہر کر رہی ہے، وزیر اعظم پاکستان عمران خان، وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے لئے گئے نوٹس کے بعد اصل صورت حال واضح ہوگی کہ ضلعی انتظامیہ اور لوکل پولیس کی موجود گی میں وکلاء کیسے ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچ گئے اور ہسپتال انتظامیہ اور مریضوں کے لواحقین کے دعوے کے مطابق مریضوںکی آکسیجن تک اتاری گئی، کیا پولیس نے بدھ کے احتجاج کیلئے تیاریاں نہیں کی تھیں یا انہیںکسی اعلیٰ شخصیت کی جانب سے وکلاء کو آگے بڑھنے سے روکنے کے احکامات نہیں دئے گئے تھے۔ لیکن دیکھا یہی گیا کہ اس تصادم میںقانون، آئین کی تشریح کرنے والے (وکلائ) اورجو لوگ انسانی جانوں کو بچاتے ہیں۔ (ڈاکٹرز) سب کے کردار واضح ہو گئے ہیں۔ دونوں فریقین نے سمجھداری نہیں دکھائی، اس واقعے سے جہاں ملک پاکستان کی جگ ہنسائی عالمی سطح پر بھی ہوگی وہیں یہ بات بھی سامنے آئے گی کوئی بھی پڑھا لکھا طبقہ اس قسم کی حرکت نہیں کرتا کیونکہ تاریخ کی طرف نظر دوڑائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عالمی جنگوں میں بھی ہسپتالوں پر کسی بھی قسم کی بمباری نہیں ہو تی۔ امن کے دنوں میں ایک ہسپتال کی ایمرجنسی پر دھاوا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے کہ کیا لاہور بار ایسوسی ایشن کے آنے والے انتخابات میں کھڑے امیدواروں نے اس واقعے کو ہوادی یا حکومت کی جانب سے غیر سنجیدہ رویہ معاملات کو اس نہج پر لے آیا مگر لگ یہی رہا ہے کہ وکلاء اور ڈاکٹرز کی لڑائی میں حکومت بے بس رہی اور وکلاء کے حق میں انہیں سرنڈر کرنا پڑے گا کیونکہ ماضی میں پاکستان کے اندر ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بار کی لڑائی میں ہمیشہ جیت بار کی ہوئی ہے۔