معاشرے کی عکاسی اور مثبت رویوں کی طرف رہنمائی کرنے میں ڈرامے کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اسی سے نوے کی دہائی میں مغرب میں ڈرامے کے حوالے سے یہ خیال گردش کرتا رہا کہ عوام کو کون سے ڈرامے دکھانے چاہئیں اور وہ کیا دیکھنا چاہتے ہیں ہمارے ہاں فارمولا ڈراموں نے جہاں مقصدیت کو کھو دیا وہاں سطحی موضوعات کے تڑکے نے ڈرامے کے معیا کو متاثر کیا اخلاقی روایات بے مقصدیت بار بار ایک ہی موضوع پر بننے والے ڈرامے ذہنی نشونما کی بجائے بوریت پیدا کرنے لگتے ہیں نہ صرف ہمارے ہاں بلکہ بالی وڈ بھی نیپوٹزم کا شکار رہا ہے جسکی وجہ سے نئے اور اچھے فنکاروں کے راستے مسدود ہونے لگتے ہیں ڈرامہ درحقیقت ایک خاموش تبلیغ بھی ہے جس کے ذریعہ انسان لاشعوری طور پرمعاشرتی حقیقتوں سے بہت کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے مضبوط خیال اور سوچ مضبوط شخصیت کو جنم دیتی ہے ڈرامے شخصیت کی تعمیر کا تقاضا ہوتے ہیںایک زمانہ تھا کہ اشفاق احمد امجد اسلام امجد اور اصغر ندیم سید کے ڈرامے اخلاق محبت اور زندگی کی حقیقتوں کے ترجمان ہوتے تھے بلکہ موضوعات پر مضبوط گرفت کی وجہ سے اپنی دلچسپی برقرار رکھتے تھے بلکہ قاری کی توجہ بھٹکنے نہیں دیتے تھے منو بھائی مرحوم سے ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے راقمہ کے ایک سوال پر کہا کہ جب موضوعات میں عامیانہ پن تصنع اور بناوٹ آجاتی ہے تو ڈرامہ اپنی پہچان کھودیتا ہے انہوں نے کہا کہ ان کا لکھا ہوا ڈرامہ سونا چاندی تصنع سے پاک دو معصوم لوگوں کی کہانی ہے جو گاؤ ں سے شہر قرض کی ادائیگی کے لئے آئے ہیں اور یہاں آکر وہ زندگی کی تلخیوں کو مختلف انداز سے دیکھتے ہیںکرداروں کی معصومیت سچائی اور محنت نے سونے پہ سہاگہ کا کام کیا ہے ہمارے ہاں فارمولا ڈراموں کے تصور نے مقصدیت کو پروان ہی نہیں چڑھنے دیا کمرشلزم نے ڈرامے کو متاثر کیا سطحی موضوعات طلاق شادی اور گھریلو جھگڑے کہانی کو اصل موضوعات سے بہت دور لے گئے اور گھٹن زدہ ماحول میں اکھڑی ہوئی سانسیں لینے لگا ڈرامہ ارطغرل آیا اور عوام میں بے حد مقبول ہواایک سوال یہ بھی چھوڑ گیا کہ وہ کون سے محرکات ہیں کہ کئی صدیوں پرانی تہذیب جو کہ پاکستان کی تہذیب بھی نہیں پاکستانی عوام کے دلوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتا چلا گیا اسکے بنیادی مقاصد کو دیکھا جائے تو یہ سیریل چار گھوڑے دورانے کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے اسلامی تہذیب بہادری انصاف اور محبت کی وہ کہانی ہے جس نے لوگوں کے دل جیت لئے در حقیقت اس ڈرامے سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے کہ ہمارے لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں اورہم کیسے ڈرامے کے موضوعات بہتر بناسکتے ہیںدوسرے ممالک کے ڈراموں کے چربوں سے بنائے جانے والے ان کے ہاں تو فٹ بیٹھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اصلی ہئیت کھو دیتے ہیں جب ڈراموں میں منفی رحجانات کو فروغ ملے اچھائی کا پہلو کہیں گم ہو جائیں ایک ہی موضوع کو بار بار دہرایا جائے اصلاحی پہلو اور نئے تقاضوں کا فقدان ہو تو ڈرام اس زوال کی طرف جا چکا ہوتا ہے جہاں سے اسے واپس لانا مشکل ہو جاتا ہے ایک محبت سو افسانے بلاشبہ عشق مجازی کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی کے بھی غماز تھے اور فلسفیانہ رنگ زندگی کی گرہیں کھولنے کے لئے کافی تھا ہمیں اج بھی ا س نہج کے ڈراموں کی ضرورت ہے جس سے معیا ر محنت اور مقصدیت کے دروازے کھل سکیں اور محنت اور لگن کا جذبہ سب سے اہم ہو کہانی کارون کو گسے پٹے اور سطحی موضوعات کی بجائے مثبت اور تعمیری موضوعات پر دسترس ہو ۔
زوال کی طرف گامزن ڈرامہ انڈسٹری
Dec 12, 2020