زوال کی طرف گامزن ڈرامہ انڈسٹری 

Dec 12, 2020

پروفیسر فہمیدہ کوثر

معاشرے کی عکاسی اور مثبت رویوں کی طرف رہنمائی  کرنے میں ڈرامے کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اسی سے نوے کی دہائی میں مغرب میں ڈرامے کے حوالے سے یہ خیال گردش کرتا رہا کہ عوام کو کون سے ڈرامے دکھانے چاہئیں اور وہ کیا دیکھنا چاہتے ہیں ہمارے ہاں فارمولا ڈراموں نے جہاں مقصدیت کو کھو دیا وہاں سطحی موضوعات کے تڑکے نے ڈرامے کے معیا کو متاثر کیا اخلاقی روایات بے مقصدیت بار بار ایک ہی موضوع پر بننے والے ڈرامے ذہنی نشونما کی بجائے بوریت پیدا کرنے لگتے ہیں نہ صرف ہمارے ہاں بلکہ بالی وڈ بھی نیپوٹزم کا شکار رہا ہے جسکی وجہ سے نئے اور اچھے فنکاروں کے راستے مسدود ہونے لگتے ہیں ڈرامہ درحقیقت ایک خاموش تبلیغ بھی ہے جس کے ذریعہ انسان لاشعوری طور پرمعاشرتی حقیقتوں  سے بہت کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے مضبوط خیال اور سوچ مضبوط شخصیت کو جنم دیتی ہے ڈرامے شخصیت کی تعمیر کا تقاضا ہوتے ہیںایک زمانہ تھا کہ اشفاق احمد امجد اسلام امجد اور اصغر ندیم سید کے ڈرامے اخلاق محبت اور زندگی کی حقیقتوں کے ترجمان ہوتے تھے بلکہ موضوعات پر مضبوط گرفت کی وجہ سے اپنی دلچسپی برقرار رکھتے تھے بلکہ قاری کی توجہ بھٹکنے نہیں دیتے تھے منو بھائی مرحوم سے ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے راقمہ کے ایک سوال پر کہا کہ جب  موضوعات میں عامیانہ پن تصنع اور بناوٹ آجاتی ہے تو ڈرامہ اپنی پہچان کھودیتا ہے انہوں نے کہا کہ ان کا لکھا ہوا ڈرامہ سونا چاندی تصنع سے پاک دو معصوم لوگوں کی کہانی ہے جو گاؤ ں سے شہر قرض کی ادائیگی کے لئے آئے ہیں اور یہاں آکر وہ زندگی کی تلخیوں کو مختلف انداز سے دیکھتے ہیںکرداروں کی معصومیت سچائی اور محنت نے سونے پہ سہاگہ کا کام کیا ہے ہمارے ہاں فارمولا ڈراموں کے تصور نے مقصدیت کو پروان ہی نہیں چڑھنے دیا کمرشلزم نے ڈرامے کو متاثر کیا سطحی موضوعات طلاق شادی اور گھریلو جھگڑے کہانی کو اصل موضوعات سے بہت دور لے گئے اور گھٹن زدہ ماحول میں اکھڑی ہوئی سانسیں لینے لگا ڈرامہ ارطغرل آیا اور عوام میں بے حد مقبول ہواایک سوال یہ بھی چھوڑ گیا کہ وہ کون سے محرکات ہیں کہ کئی  صدیوں پرانی تہذیب جو کہ پاکستان کی تہذیب بھی نہیں پاکستانی عوام کے دلوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتا چلا گیا اسکے بنیادی مقاصد کو دیکھا جائے تو یہ سیریل چار گھوڑے دورانے کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے اسلامی تہذیب بہادری انصاف اور محبت کی وہ کہانی ہے جس نے لوگوں کے دل جیت لئے در حقیقت اس ڈرامے سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے کہ ہمارے لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں اورہم کیسے ڈرامے کے موضوعات بہتر بناسکتے ہیںدوسرے ممالک کے ڈراموں کے چربوں سے بنائے جانے والے ان کے ہاں تو فٹ بیٹھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اصلی ہئیت کھو دیتے ہیں جب ڈراموں میں منفی رحجانات کو فروغ ملے اچھائی کا پہلو کہیں گم ہو جائیں ایک ہی موضوع کو  بار بار دہرایا جائے اصلاحی پہلو اور نئے تقاضوں کا فقدان ہو تو ڈرام اس زوال کی طرف جا چکا ہوتا ہے جہاں سے اسے واپس لانا مشکل ہو جاتا ہے ایک محبت سو افسانے بلاشبہ عشق مجازی کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی کے بھی غماز تھے اور فلسفیانہ رنگ زندگی کی گرہیں کھولنے کے لئے کافی تھا ہمیں اج بھی ا س نہج کے ڈراموں کی ضرورت ہے  جس سے معیا ر محنت اور مقصدیت کے دروازے کھل سکیں اور محنت اور لگن کا جذبہ سب سے اہم ہو کہانی کارون کو گسے پٹے اور سطحی موضوعات کی بجائے مثبت اور تعمیری موضوعات پر دسترس ہو ۔

مزیدخبریں