اپوزیشن کی تمام جماعتیں مائنس ون ایجنڈے پر متفق ہیں۔ن لیگ کے کیمپ سے سخت ترین مؤقف اپنا یا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن نے اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کو بھی اپنا ہمنوا بنانے کی کو شش کی لیکن پیپلز پارٹی نے اس ضمن میں تاحال گریز کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو اپنے پرانے تعلقات اور خدمات یاد آتی ہیں تو وہ بھی دبے لفظوں میں غصے کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن براہ راست نام لینے سے وہ بھی اجتناب برتتے ہیں۔ اپوزیشن کی دیگر قوم پرست جماعتیں اس صورتحال میں ہوا کے رخ کو دیکھ کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کی تحریک جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے ویسے ہی ان جماعتوں کی فرسٹریشن بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے ہر جماعت اس کو شش میں ہے کہ وہ خود اس تحریک کا زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے لے سکتی ہے۔ دوسرا تمام جماعتوں میں باہمی اعتماد کی شدید کمی ہے۔ ہر جماعت دوسری جماعت پر گہری نظر رکھے ہوئے کہ کہیں کو ئی ڈیل کر کے ساراحلوہ نہ کھا جائے اور باقی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ مریم نواز اپنی جارحانہ طرز سیاست اور نواز شریف کی آشیر باد کے ذریعے پارٹی صدر شہباز شریف اور سینئر انکلز کومطیع کرنے کی مہم جوئی پر ہیں۔ جس تیزی سے وہ اپنی پارٹی کو ٹیک اوور کرتی جارہی ہیں اور بظاہر پارٹی کی نائب صد ر ہو نے کے باوجود عملی طور پر پارٹی کی سربراہ بن چکی ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں پوری طرح محتاط ہیں کہ کہیں اسی رفتار سے وہ پی ڈی ایم کی تحریک بھی ہائی جیک نہ کرلیں۔ اس لئے پیپلز پارٹی نے مریم نواز کو مخصوص فاصلے پر رکھا ہوا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے گلگت بلتستان میں بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو نے کچھ دیر کے لئے مسلم لیگ ن کو بیک فٹ پر جانے پر مجبو کر دیا تھا۔ جس کے بعد مریم نواز کو بھی اسی ادارے کو ویسا ہی انٹرویو دینا پڑا۔ وہی ن لیگ جو کہہ رہی تھی کہ عمران خان سے بات تو درکنار نام لینا بھی گوار انہیں ، ہماری لڑائی تو ان کے لانے والوں کے خلاف ہے ۔ اب مریم نواز سمیت ان کے سب لیڈر عمران خان کا نام لے کر تقریریں کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ن لیگی رہنما محمد زبیر کی جانب سے ملاقاتوں اور پیغام رسانی کی باتیں طشت از بام ہونے اور اس پر وضاحتوں کی تفصیلات نے بھی ن لیگ کا اعتماد عوام میں کم کیا ہے۔ ایک جانب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ تو دوسری جانب خفیہ ملاقاتیں ، چہ معنی دارد ؟ لاہور کا جلسہ مسلم لیگ ن کے لئے بقا کا مسئلہ ہے کہ اگر یہ شو کامیاب نہ ہوا تو اس کے اثرات پوری پی ڈی ایم تحریک پر پڑیں گے۔ حکومت گراؤ اتحاد مناسب جلسے کرنے کے باجود تا حال حکومت کو دباؤ میں نہیں لا سکا۔ آٹھ دسمبر کے پی ڈی ایم اجلاس سے متعلق دعوے تھے کہ اس کے بعد" آر یا پار" حکمت عملی اپنائی جائے گی۔ اجلاس کے بعد پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمن کوئی بڑا اعلان کرنے سے قاصر رہے بلکہ صحافیوں کے سوالوں پردفاعی حکمت عملی اختیار کئے رکھی۔ ایک صحافی کے اس دلچسپ سوال پر کہ مولانا آپ تو استعفیٰ لینے آئے تھے اپنے استعفے دے کر جا رہے ہیں۔ مولانا نے اسے گھسا پٹا سوال قرار دے کر جواب دینے سے انکار کر دیا۔ جبکہ آر یا پار کے دعوے کرنے والی مریم نواز بھی مولانا کی پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں کے سوال یہ کہہ کر ٹال گئیں کہ جو مولانا نے کہا وہی ٹھیک ہے۔ آر یا پار کے بیانیے پر ٹی وی شوز میں اٹھنے والے سوالات کے طوفان نے پی ڈی ایم قیادت کو مجبو رکیا ہے کہ وہ 13 دسمبر کے جلسے کے لئے کوئی واضح اعلانات کرے۔ لیکن تاحال پی ڈی ایم کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں کہ جسے عوام کے سامنے رکھا جا سکے۔ فیس سیونگ کے لئے استعفوں کی بات کی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور ماہر آئین و قانون بیرسٹر اعتزاز احسن کے مطابق اپوزیشن کے موجودہ نمبر گیم پر استعفوں کا فائدہ عمران حکومت کو ہو گا۔ نہ ہی اپوزیشن کے استعفے سینیٹ الیکشن کو متاثر کر سکیں گے۔ ملکی ادارے اس وقت کسی طرح بھی کسی غیر آئینی اقدام کو سپورٹ کرنے کے لئے تیار نہیں تو ایسے پی ڈی ایم کا مخمصہ بڑھے گا ۔ دسمبر اور جنوری میں اسلام آباد کی سخت سردی ، کرونا کی بڑھتی پابندیاں معاشی مسائل کے باعث عوام باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ ان جماعتوں نے اصلی ٹریڈ یونینز اور کسان تنظیموں کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ بلکہ سیاسی جماعتوں میں موجود لیبر اور کسان ونگز نمائشی حیثیت رکھتے ہیں۔ تو پھر ان طبقات کی حقیقی شمولیت کیسے ہو گی ؟ ا س سب کے باوجود بھی پی ڈی ایم اتحاد اگر "مائنس ون" پر مْصر ہے تو انہیں 13 دسمبر کے لاہور جلسے میں عوام کو واضح لائحہ عمل بتانا ہوگا کہ۔۔۔کیسے؟
مائنس عمران خان ، کیسے ؟
Dec 12, 2020