پی ڈی ایم کی تحریک اور جمعیت اہلحدث  

یہ بات شک وشبے سے بالاتر ہے کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث وطن عزیز کی ایک مؤقر، مؤثر، متحرک اورفعال دینی وسیاسی جماعت ہے۔ سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم حفظھما اللہ جیسی دوراندیش اور وژنری شخصیات کے ہاتھ میں ہے۔ جماعت کی مجلس شوریٰ سال میں کم از کم ایک مرتبہ سیاسی وتنظیمی معاملات پر نظر ثانی کرتی رہتی ہے۔
آئین پاکستان کے تحفظ کیلئے ہمارے قائدین سب سے بلند آہنگ رہتے رہے ہیں۔ موجودہ قائدین بھی اپنے پیشرووں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہوئے ملک میں جمہوری اقدار کے تحفظ کیلئے برسر میدان نظر آتے ہیں۔ فطری طور پر تمام اداروں اور ان سے متعلقہ شخصیات کو آئین پاکستان میں دئیے گئے اختیارات اور فریم ورک میں رہنے کا کھلا اور ظاہر موقف رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو اپنے بیانیہ اور موقف کے قریب ترین اور اہلحدیث افراد کی اکثریتی رائے کے مطابق سمجھتے ہوئے مسلم لیگ ن کے اتحادی ہیں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب سے عمران خان برسر اقتدار آئے ہیں تب سے پاکستان کی ترقی کو بریک لگ گئی۔ معیشت روز بروز گرنے لگی۔ خارجہ پالیسی کی ناکامی کا عالم یہ ہے کہ پاکستان اپنے مخلص ترین دوستوں سے بھی محروم ہوچکا ہے۔ کشمیر پر بھارتی تسلط کو خاموش رضامندی دے دی گئی ہے۔ اقلیتوں کو حقوق دینے کی آڑ میں مسلمان اکثریت کے حقوق کو بے دردی سے پامال کیا جا رہا ہے۔ سکھوں اور ہندوؤں کیلئے گوردوارے اور مندر بنائے جا رہے ہیں جبکہ اسی آڑ میں دین اور وطن کے غدار قادیانیوں کو ماورائے آئین سپورٹ بھی ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکاکر عالمی قوتیں موجودہ حکومت سے اسلام اور شعائر اسلام یعنی مساجد ومدارس کیخلاف اقدامات کروائے چلے جا رہی ہیں جبکہ وقف کے طے شدہ معاملات کو چھیڑ کر مدارس ومساجد بند کرنے کی چالیں چلی جا رہی ہیں۔
دوسری طرف وطن عزیز اس وقت جس بدترین سیاسی ومعاشی عدم استحکام کا شکار ہے ستر سالہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ان حالات میں وطن عزیز کی ہمدرد سیاسی وجمہوری قوتوں نے اب یہی مناسب جانا کہ موجودہ حکومت کا مزید قائم رہنا وطن عزیز کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے تو انہوں نے ملک بھر کی اہم ترین جماعتوں کو ساتھ ملا کر مولانا فضل الرحمان کی قیادت میںپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے جو سیاسی اتحاد تشکیل دیا اس میں مرکزی جمعیت اہلحدیث بھی ہے۔ امیر مرکزیہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر کو مرکزی نائب صدر اورسینیٹر ڈاکٹرحافظ عبدالکریم کو مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ پی ڈی ایم نے اس تحریک کا آغاز گوجرانوالہ میں جلسہ عام سے کیا تو مرکزی جمعیت اہلحدیث نے نیز جلسہ کی کامیابی کیلئے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ اسی طرح کراچی، کوئٹہ ، پشاور اور ملتان میں بھی مقامی جماعتوں نے پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتوں کے شانہ بشانہ اپنے نظم،افرادی قوت اور قائدین کی بصیرت کا لوہا منوایا۔ 
پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جدوجہد اب حتمی مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ 13دسمبر کو لاہور میں جلسہ عام کے اعلان سے حکومت ہل چکی ہے۔ سوشل میڈیا کی زینت بننے والی مبینہ خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بعض لوگ اپوزیشن سے رابطے کر رہے ہیں۔ حکومتی وزرا اور خود وزیر اعظم ایک طرف تو جلسہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا اعلان کر رہے ہیں دوسری طرف جلسہ کیلئے کرسیاں دینے والوں پر مقدمہ کی نوید سنا رہے ہیں۔ گویا جناب وزیر اعظم کا اصل مقابلہ پی ڈی ایم سے نہیں کرسیاں دینے والوں سے ہوگا۔ نیز مینار پاکستان گرائونڈ کو تالاب بنا دیا گیا تاکہ جلسہ نہ ہوسکے۔ حکومتی دوہرے معیار نے عامۃالناس میں حکومت کا تماشا بنا دیاہے کہ ایک طرف کرونا کی وجہ سے جلسہ نہ کرنے کی تلقین اور اجتماعات پر مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں تو دوسری جماعت اسلامی جیسی ہومیوپیتھک مخالف جماعت اور حکومتی وزرا سینکڑوں لوگوں کے اجتماعات کئے جا رہے ہیں۔
 اب مرکزی جمعیت اہلحدیث کے کارکنان کی ذمہ داری ہے کہ ملکی سیاسیات کی اس انقلاب آمیز کروٹ کے دوران ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ قائدین مرکزیہ کے بیانیہ کے ساتھ کھڑے ہوں۔ پی ڈی ایم کی تحریک کو شرح صدر سے سپورٹ کریں۔ قائدین اہلحدیث اس ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے بر سر میدان ہیں تو ہمیں کسی کی دشمنی یا دوستی سے ہٹ کر اپنی جماعت کی پالیسی کو سپورٹ کرنا چاہئے۔ یعنی میں ملک میں آئین کی بالادستی،وطن عزیز کی نظریاتی شناخت کے تحفظ، بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی عزت، کشمیر کی آزادی،معیشت کی بحالی، سلیکٹڈ حکمران اورسلیکٹڈ جمہوریت سے نجات، اپنے ووٹ کی توقیر اوراسلامی پاکستان کے قیام کے لئے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ تاریخ لکھی آج جا رہی ہے پڑھی کل کو جائے گی، ہمیں تاریخ سازی کے اس تاریخ ساز دور میں اپنا روشن کردار آنے والی نسلوں کیلئے باقی رکھنا ہے۔اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ 

ای پیپر دی نیشن