معزز قارئین ! عام طور پر عربی اور علوم دینی کے تعلیم یافتہ اشخاص کو ’’ مولانا ‘‘ کہا جاتا ہے اور ’’ مُلا ‘‘ بھی لیکن ’’مصّور پاکستان ‘‘ علاّمہ اقبال ؒ نے تحریک پاکستان کے مخالفین ’’ مولانائوں ‘‘ کو ’’ مُلا / مولوی‘‘ کہہ کر پکارا ہے۔ آپ ؒ کا ایک شعر ہے …؎
دین ِکافر فکر و تدبیر و جہاد!
دین مُلا ،فی سبیل اللہ فساد!
…O…
یعنی۔ (اُس دَور کے کافر کا دین فکراور تدبیرِجہاد (جہد مسلسل) ہے،جبکہ ملا کا دین فی سبیل اللہ فساد ہے)۔ ’’بانی ٔ پاکستان ‘‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے (11 نومبر 1888ء سے 22 فروری 1958ء تک )ہندوئوں کی متعصب سیاسی جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے صدر مولانا ؔ ابو الکلام آزاد ؔ کو کانگریس کا"Showboy" قرار دِیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ’’ قیام پاکستان کے بعد ، کسی دَور کے عام انتخابات میں (مذہبی جماعتوں کے قائدین ) ’’ مولانائوں / مُلائوں ‘‘ نے’’ بھاری اکثریت ‘‘ (Heavy Mandate) حاصل نہیں کِیا۔ فوجی آمریت ہو یا ( کسی بھی قسم کی ) جمہوریت مذہبی جماعتوں کے قائدین کو فوجی آمروں ( صدور ) یا جمہوری وزرائے اعظم کے اتحادیوں کی طرف سے سیاست ؔ کرنا ہوتی ہے اور وہ سیاستدان ؔ کہلاتے ہیں ۔ عربی زبان کے لفظ سیاستؔ کے معنی ہیں (قانون، ملک چلانا، بادشاہت کرنے کا طریقہ ، نگہبانی ، حکومت ، تنبیہ ، لوگوں کو تصور و جرم کی سزا دے کر تنبیہ کرنا ہے ) ۔ سیاست کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے والے شخص کو ’’ سیاست باز ‘‘ اور خونریز اور سفاک حکمران کو ’’سیاست گر ‘‘۔ عام سیاستدان کو ’’ سیاست کار‘‘ کہا جاتا ہے ۔
تحریک پاکستان کے مخالفین ’’ کانگریسی مولویوں کی باقیات ‘‘ کے سر خیل مولانا ؔ کہلانے والے فضل اُلرحمن صاحب نے 28 دسمبر 2016ء کو فرمایا تھا کہ ’’ مُلّا / مولوی سے چُھٹکارا ممکن نہیں ۔ نکاح اور جنازہ بھی مُلاّ / مولوی ہی پڑھاتا ہے۔ اب سیاست بھی مُلاّ ہی کرے گا ‘‘ ۔ اِس پر 30 دسمبر 2016ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ مُلاّ سیاست کرتا رہے ‘‘۔ ناکام ہوتا رہے گا !‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ کیا خُدانخواستہ سپریم کورٹ آف پاکستان / الیکشن کمِشن آف پاکستان 2018ء کے عام انتخابا ت میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے اُن تمام مسلمان امیدواروں کو نا اہل قرار دے دیں گے جن کے ناموں کے ساتھ مولانا ؔ، مولوی ؔ یا مُلاّ کا ’’ سابقہ ‘‘ نہیں لگا ہُو گا ؟لیکن، معزز قارئین و قاریات!میرا یہ اندازہ غلط ثابت ہُوا۔ جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں کئی مولانا ؔ، مولوی ؔاور مُلاّ ؔحضرات نے حصّہ لِیا ، کچھ کامیاب ہُوئے اور مولانا فضل اُلرحمن سمیت بہت سے ناکام بھی ہو گئے تھے ۔
’’کامیاب فضل اُلرحمن ! ‘‘
یہ الگ بات ہے کہ ’’ مُلاّ / مولوی ‘‘ کی حیثیت سے فضل اُلرحمن صاحب انتخابات میں ناکامی کے باوجود اپنی سیاست ؔ میں کامیاب دِکھائی دے رہے ہیں ‘‘۔ 4 ستمبر 2018ء کے صدارتی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ’’کار پرداز دان اور عہدیداران ‘‘ نے فضل اُلرحمن صاحب کو اپنی مسلم لیگ کا امیدوار بنا دِیا لیکن، موصوف ہار گئے ۔ یہ الگ بات کہ’’ ہار کے باوجود فضل اُلرحمن صاحب حزب اختلاف کی 11 مختلف اُلخیال سیاسی جماعتوں کے اتحاد "Pakistan Democratic Movement"۔ کے صدر کی حیثیت سے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لئے اپنی ایڑی اور چوٹی کا زور لگا رہے ہیں! ‘‘ ۔
’’سیاسیانِ جاتی عُمرا ! ‘‘
معزز قارئین ! 2013ء میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے دَور میں رائے وِنڈ کا ’’ جاتی عُمرا ‘‘ ( فی الحقیقت ) ’’ اُمرائے شریفین ‘‘ کہلاتا تھا۔ 25 دسمبر 2015ء کو ، قائداعظمؒ (اور خود وزیراعظم نواز شریف ) کی سالگرہ کی شب، اُن کی نواسی ( مریم نواز کی بیٹی ) مہر اُلنساء کی رسم حناء کی تقریب میں ، وزیراعظم نواز شریف نے فضل اُلرحمن صاحب کو تو مدّعو نہیں کِیا تھا لیکن بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی اپنے لائو لشکر سمیت وہاں موجود تھے ۔
اُسی شب اور اگلے روز الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر دِکھایا / سُنایا اور شائع کِیا گیا تھا کہ ’’وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعظم نریندر مودی کو اپنی والدۂ محترمہ شمیم اختر (المعروف آپی جی ) سے ملوایا تو آپی جی نے دونوں وزرائے اعظم سے کہا تھا کہ ’’ مل کر رہو گے تو، خُوش رہو گے !‘‘۔اِس پر مودی جی نے بڑی سعادت مندی سے کہا تھا کہ ’’ ماتا جی ! ہم اکٹھے ہی ہیں !‘‘۔ اِس پر 27 دسمبر 2015ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا کہ ’’ مودیؔ نواز نکلا ، محمدؔ نواز بھی ! ‘‘۔ دراصل میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست ‘‘ کے تین شعر یوں تھے …؎
’’ دْکھ بانٹے کچھ غریبوں کے ، پڑھ لی نماز بھی!
مہر اْلنساء کی ، رسمِ حِنا کا جواز بھی!
شردھا سے پیش کردِیا ، حسن ؔاور حسین ؔکو!
مصروفِ کاراْن کا چچا ، شاہباز ؔبھی!
مَیں برتھ ڈے پہ قائداعظمؒ کی کیا کہوں؟
مودی ؔنواز نکلا، محمد نواز ؔبھی‘‘
…O…
’’2017ء کا انقلاب !‘‘
معزز قارئین ! رائے وِنڈ کی آپی جی انتقال کر چکی ہیں ۔ ’’ قائداعظم ثانی ‘‘ کہلانے والے سزا یافتہ اور مفرور میاں نواز شریف اپنے دونوں بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کے مہمان ہیں ۔ آپی جی کے چھوٹے بیٹے میاں شہباز شریف اور پوتے حمزہ شہباز جیل میں اور شریف خاندان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حقیقی وارث مریم نواز ، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے …؎
’’تیری آواز میری آواز،
مریم نواز ، مریم نواز!‘‘
(جاری ہے )