وزیراعظم عمران خان نے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سے ملاقات کی ہے۔ موجودہ صورتحال میں گورنر پنجاب کی وزیر اعظم سے ملاقات نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ کیونکہ ملک بھر میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے جلسوں اور حکومت مخالف اتحاد میں نہ صرف شدت آرہی ہے بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ ساتھ معاملات بگڑتے جا رہے ہیں۔ اس سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے یا سیاسی درجہ حرارت میں کمی کے لئے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو اہم ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ انہیں اسلام آباد بلائے جانے کا مقصد یہی ہے کہ وہ اپنے سیاسی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کریں اور موجودہ صورتحال میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین کشیدگی کم کرنے کے لئے کردار ادا کریں۔ اسلام آباد کی یہ سوچ تو مثبت ہے۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور مثبت سیاسی کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی مدد تو کر سکتے ہیں، وہ ملک کو اس عدم استحکام کی صورتحال سے نکالنے میں اہم کردار ادا بھی کر سکتے ہیں۔ گوکہ وزیراعظم نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے خاصی دیر کر دی ہے۔ کیونکہ اپوزیشن جس سطح تک یا جس نہج پر پہنچ چکی ہے یہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے اگر یہ سوچ بھی لیا جائے کہ یہ ممکن ہے کہ اپوزیشن اپنا موقف بدلے گی تو یہ بہت مشکل ہو گا۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہے کیونکہ اپوزیشن ناصرف حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف نے اداروں کو بھی متنازع کیا ہے۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ جب ادارے متنازع ہو رہے تھے تو اس وقت حکومت کو کیا کرنا چاہیے تھا یا پھر حکومت نے فوری طور پر اس معاملے کی سنجیدگی اور حساسیت کو سمجھتے ہوئے کیا اقدامات اٹھائے۔ یا انہیں کیا اقدامات کرنے چاہییں تھے۔ اگر حکومت نے بروقت بات چیت کا آغاز نہیں کیا، یا اس مسئلے کو نظر انداز کیا ہے تو دونوں صورتوں میں نا صرف صرف پاکستان میں سیاسی نظام تمام بلکہ اس کے ساتھ ریاست کے اداروں کو بھی عوامی سطح پر خاصا نقصان پہنچا ہے۔ کئی ماہ کی مسلسل بیان بازی بلکہ دو طرفہ بیان بازی کے بعد اب وزیراعظم عمران خان کو شاید احساس ہوا ہے یا پھر انہیں یہ احساس دلایا گیا ہے یا پھر انہوں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھ بھی ہو حکومت اتنی تاخیر کر چکی ہے کہ اپوزیشن کے پاس واپسی کا کوئی ایسا راستہ نہیں بچا کہ ان کی سیاست بھی چلتی رہے اور جو مطالبات وہ عوام کے سامنے کر رہے ہیں وہ منوانے میں بھی کامیاب ہو جائیں۔
وزیراعظم عمران خان نے چودھری محمد سرور کو سیاسی عدم استحکام ختم کرنے کا ہدف سونپا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ چودھری محمد سرور موجودہ صورتحال میں مختلف سیاسی جماعتوں سے بات چیت چیت کے ذریعے اس مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ لیکن نتائج سے قطع نظر اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ گورنر پنجاب ہر جماعت میں قابل قبول ہیں اور پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی ،جمیعت علماء اسلام میں انہیں سنجیدہ سیاسی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ ان کے تمام اہم سیاسی رہنماؤں سے اچھے تعلقات ہیں۔ گورنر پنجاب کو بڑی سیاسی جماعتوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور سیاسی جماعتوں میں ان کی بات چیت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ وہ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی کشیدگی کو اگر ختم کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو درجہ حرارت میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ گفتگو کا راستہ کھل جائے گا۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں وزیر اعظم کا گورنر سرور پر اعتماد یہ ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جب بھی کشیدگی ہو گی مسئلہ بات چیت سے ہی حل ہوگا۔ اس لیے یہ ذہن میں رکھیں کہ آپ کے پاس ایسے لوگ ضرور ہونے چاہییں جو نہ صرف اچھی سیاسی شہرت کے حامل ہوں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تمام بڑی سیاسی جماعتوں تو میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو۔ گورنر سرور ایک تجربہ کار شخص ہیں، وہ بولنے سے زیادہ سننے پر یقین رکھتے ہیں جب آپ مذاکرات میں جاتے ہیں یا مذاکرات کا حصہ بنتے ہیں تو وہاں پر آگئے ایک اچھے مقرر کے ساتھ اچھی قوت سماعت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ گورنر پنجاب مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے میں رہتے ہیں بلکہ وہ حزب اختلاف کی اہم جماعتوں کے سربراہان سے بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ مذاکرات کے وقت اچھی گفتگو اچھی سیاسی سوچ اور اچھے ذاتی تعلقات کام آتے ہیں کیونکہ آپ اچھی گفتگو کو نظر انداز کر دیں گے اچھی سوچ کو بھی نظر انداز کر دیں گے لیکن اچھے سیاسی تعلقات کو کبھی نظر انداز نہیں کریں گے۔ کیونکہ سیاسی تعلقات ذاتی تعلقات اور سیاست کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور سیاست دانوں کے لیے سب سے اہم سیاسی عمل کا چلتا رہنا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جہاں پر سیاستدان تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہوئے گفتگو میں اچھی دلیلوں پر قائل ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ آپ اچھے حکومتی عہدے پر ہو تو لوگ آپ کی بات سنیں گے۔ سیاسی لوگوں سے بات چیت کیلئے ہر وقت اچھے عہدے کے بجائے اچھے سیاسی پس منظر اور اچھی سیاسی سوچ کا ہونا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔حالات کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ایک اچھا انتخاب ضرو کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے پاس مینڈیٹ کیا ہے وہ کس بنیاد پر یا کونسے اصول و ضوابط یا پھر ان نکات کو سامنے رکھتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ اگر حکومت مفاہمت کا راستہ اختیار کرتی ہے تو پھر سیاسی لوگوں کو کہیں نہ کہیں تو سہولت فراہم کرنا پڑتی ہے۔گورنر سرور کی موجودگی میں یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ فریقین کے مابین تلخیوں کو ختم کرانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں اور وہ اس کی اہلیت بھی رکھتے ہیں لیکن جب وزیراعظم عمران خان گورنر پنجاب کو یہ ہدف دے چکے ہیں یا اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا ہے اور پارلیمنٹ کے عزت اور توقیر کو بھی برقرار رکھنا ہے تو اپوزیشن کو مشاورت میں شامل کرنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنے زبان دراز وزیران کرام اور مشیران کو بھی پابند بنانا ہوگا کہ وہ غیر ضروری گفتگو سے گریز کریں۔ منطق کے بغیر کوئی بات نہ کریں حزب اختلاف کی قیادت پر ذاتی حملے کرنا بند کریں اور اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی رہنماؤں بارے تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال ترک کریں۔
یہ بات تو طے ہے کہ اس سیاسی عدم استحکام یا سیاسی محاذ آرائی کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو رہا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ سیاسی محاذ آرائی کا یا اس سیاسی جنگ کا ذمہ دار کون ہے۔ لیکن اس سیاسی صورتحال میں کبھی بھی ترقی کا سفر شروع نہیں ہو سکتا۔ ترقی کے لئے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا شروع ہونا ضروری ہے اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے سیاسی استحکام ضروری ہوتا ہے۔ جب حکومت اور اپوزیشن ہر وقت ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہیں اور سارا وقت بیانات جاری کرنے یا بیانات کا جواب دینے میں صرف کریں گے تو پھر ترقیاتی کاموں کو صرف خواب میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں جبکہ ہر طرف استعفوں کے بارش ہو رہی ہے بیانات کی منڈی لگی ہوئی ہے خود کو اس صورتحال میں خاموش رہنے اور اپوزیشن کے ساتھ بامقصد اور بامعنی گفتگو اور مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔ چودھری سرور اس سلسلہ میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کی سیاسی سوجھ بوجھ سیاسی تعلقات سے فائدہ اٹھانا چاہیے گوکہ ماضی میں حکومت نے مسئلہ کشمیر کے معاملے پر پنجاب چودھری محمد سرور کی صلاحیتوں اور بیرونی دنیا میں ان کے تعلقات سے فائدہ نہیں اٹھایا اس کا نقصان بھی پاکستان کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ اور وزیراعظم عمران خان نے انہیں یہ مشن سونپا ہے تو پھر کام کرنے میں آزادی بھی ملنی چاہیے۔ حکومتی وزراء اور مشیران ہر روز ناشتے کے وقت پر دوپہر کے کھانے میں اور پھر رات کے کھانے میں ایک ویڈیو بیان جاری کرتے رہیں گے تو یہ سیاسی اختلافات کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے ہے کہ انہوں نے صرف سیاسی مخالفین کے ساتھ ہی معاملات کو آگے نہیں بڑھانا بلکہ کچھ وعدے انہوں نے عوام سے بھی کیے ہیں اگر پاکستان تحریک انصاف عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے ہر وقت ڈنڈا لے کر حزب اختلاف کے پیچھے پھرنے کے بجائے وضعداری اور سیاسی رواداری کو آگے بڑھائے۔
وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر وزارتوں میں تبدیلی کی ہے اس مرتبہ نہایت غیر ذمہ دار اور ناکام وزیر شیخ رشید کو سب سے اہم وزارت داخلہ سونپ دی ہے۔ شیخ رشید پرانے سیاستدان ہیں اور اور سیاسی جماعتوں میں ان کی پرانی دوستیاں اور دشمنیاں موجود ہیں۔ اس وزارت میں آ کر اگر وہ سیاسی دشمنوں کو ٹھکانے لگانے میں مصروف ہو گئے تو حکومت کے مسائل میں اضافہ ہو گا۔ وہ پاکستان ریلویز سے سات آٹھ درجن حادثات اور سینکڑوں قیمتی جانوں کا بوجھ لے کر ریلوے سے وزارت داخلہ منتقل ہو رہے ہیں انہیں اپنی زبان پر کوئی قابو نہیں ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اب تک جن تنازعات یا مسائل کا سامنا رہا ہے ان میں سب سے بڑا مسئلہ وزراء کی زبان درازی ہے۔ غیر محتاط گفتگو کرنے والوں میں دیکھا جائے تو شیخ رشید نمایاں نظر آتے ہیں۔ وزارت چلانے میں تو انہیں ایک نمبر بھی نہیں دیا جاسکتا لیکن زبان چلانے میں دور دور تک ان کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ اب انہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ وزیر داخلہ کا ہر لفظ ایک حکم کا درجہ رکھتا ہے اور اگر یہاں پر بھی انہوں نے وہی طرز عمل یا وہی رویہ اختیار کیا تو یقینا حکومت کے لئے بہت مسائل ہوں گے۔ ان کی یہ نئی ذمہ داریاں ایک طرح سے سینٹر شبلی فراز پر عدم اعتماد بھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان شبلی فراز کو ہٹانا بھی نہیں چاہتے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان کی کارکردگی سے خوش بھی نہیں ہیں۔ اب غیراعلانیہ طور پر شیخ رشید وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات کا کردار نبھائیں گے۔ وہ مکمل طور پر حکومتی بیانیے یا جو صورتحال بدل رہی ہوگی اس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں گے تو وزیر اطلاعات کے بولنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ شیخ رشید اگر وزارت داخلہ کو ویسے ہی چلاتے رہے جیسے انھوں نے ریلوے کو چلایا ہے یا جلایا ہے تو پھر تباہی کا امکان زیادہ ہے۔ وزیر ریلوے کی حیثیت سے انہوں نے ریل گاڑیوں کو تباہ کیا ہے وزیر داخلہ کی حیثیت سے وہ ملک کے سیاسی عمل کو تباہ کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ یہ کام کتنی تیزی کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر وہ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو کم از کم دشمنی کے بجائے وزارت کو میرٹ پر چلانا ہوگا بالکل ایسے ہی جیسے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صوبے کو چلا رہے ہیں۔ وزیراعلی پنجاب کی کارکردگی کے حوالے سے تو بات چیت کی جا سکتی ہے لیکن انہوں نے سیاسی انتقام یا سیاسی مخالفین کو ہدف بنانے کو عادت نہیں بنایا بلکہ انہوں نے درمیانی راستہ اختیار کرتے ہوئے سیاسی حریفوں کو بھی سیاست کی اجازت دی ہے اور قانون پر عملدرآمد کی بھی کوشش کی ہے۔یہ ان کی بہتر سیاسی سوچ ہے اگر شیخ رشید جارحانہ انداز میں ہی بیانات جاری کرتے اور احکامات جاری کرتے رہے تو پھر پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے ساتھ سیاسی محاذ آرائی تحریک پرتشدد کارروائیوں میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس صورتحال میں شیخ رشید کو سب سے پہلے غیر ضروری بیانات اور غیر ذمہ دارانہ رویہ سے باہر نکل کر 22 کروڑ لوگوں کے ملک کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے کام کرنا ہوگا۔
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اہم مشن پر!!!!!
Dec 12, 2020