اسلام آباد (نامہ نگار) پلی بارگین کرنے والے ملزموں پر قانون کے مطابق تمام سزائیں لاگو ہوتی ہیں۔ ملزم پلی بارگین کی درخواست میں ملزم نہ صرف اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہے بلکہ لوٹی گئی رقم مارک اپ کے ساتھ مجموعی واجب الادا رقم ادا کرتا ہے۔ نیب اعلامیہ کے مطابق بدعنوانی تمام برائیوں کی ماں ہے جو کہ ملک کی ترقی و خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نیب کا قیام بدعنوانی کے خاتمے اور بدعنوان عناصر سے لوٹی ہوئی رقم کی وصولی اور قومی خزانے میں جمع کرانے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ نیب نے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی متحرک قیادت میں "سب کے لئے احتساب" کی اپنی پالیسی کے ذریعے نہ صرف بڑی مچھلیوں کو گرفتار کیا بلکہ بدعنوان عناصر سے 466ارب روپے کی لوٹی ہوئی رقم برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کروائی۔ نیب اعلامیہ کے مطابق نیب نے نہ صرف سب کا احتساب یقینی بنانے کا وعدہ کیا بلکہ اپنی بلا امتیاز احتساب کی پالیسی پرکامیابی سے عمل کیا۔ نیب چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی متحرک قیادت میں خود احتسابی پر پختہ یقین رکھتاہے۔ نیب نے شکایت کی تصدیق ، انکوائریوں اور انویسٹی گیشنز کو مکمل کرنے اور متعلقہ احتساب عدالت میں مقدمات دائر کرنے کے لئے دس ماہ کا وقت مقرر کیا تھا اور اگر ضرورت ہو تو میگا بدعنوانی کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے اس کی مدت میں اضافہ کیا جاسکتاہے۔ نیب نے نئے انویسٹی گیشن آفیسران اور لاآفیسرز کوتعینات کرکے نیب کے استغاثہ اور آپریشن ڈویژنوں کو مزید متحرک کیا ہے اور انہیں وائٹ کالر کرائمز کے مقدمات سمیت دیگر مقدمات کی بھرپور انداز میں انکوائری کرنے اور عدالتوں میں ان کی پیروی کرنے کے لئے جدید خطوط پر تربیت فراہم کی ہے۔ملزم نیب آرڈیننس 1999کے آرٹیکل 25بی کے تحت پلی بارگین کی درخواست دیتاہے۔ملزمان نیب کی جانب سے اکٹھے گئے ٹھوس ثبوت اور شواہد کو دیکھ کر پلی بارگین کا راستہ رضاکارانہ طور پر اختیار کرتا ہے۔پلی بارگین کے بعد ملزم 10سال کے لئے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نا اہل ہو جاتا ہے۔کاروباری فرد ہونے کی صورت میں وہ شیڈول بینکوں سے قرضہ کے حصول کے لئے نا اہل ہو جاتا ہے۔اس کی کمپنی بلیک لسٹ ہو جاتی ہے۔اگر وہ سرکاری ملازم ہے تو احتساب عدالت سے پلی بارگین کی منظوری کے بعد ملازمت سے سبکدوش کر دیا جاتا ہے۔یہ رقوم قومی خزنہ میں جمع کرائی جاتی ہے کیونکہ نیب یہ قومی فرض سمجھ کر ادا کر رہاہے۔اعلامیہ میں مزید کہاگیاہے کہ موجودہ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کے دور میں ، نیب فعال ادارہ بن گیا ہے اور اس کی سب کا احتساب کی پالیسی کی وجہ سے اس کی ساکھ اور تشخص میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ چیئرمین نیب حکومت یا اپوزیشن میں ان کی حیثیت یاعہدے کو سامنے رکھے بغیر "سب کے لئے احتساب" کی پالیسی اپناتے ہوئے بلا امتیازاحتساب پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔