گریٹر تھل کینال کی تعمیرکیلئے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کےساتھ معاہدے پردستخط سے انکار صرف پنجاب نہیں ،پاکستان کےساتھ زیادتی ہے، بڑھتی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے زمینوں کی سیرابی وقت کی اہم ضرورت ہے


لاہور(کامرس رپورٹر )گریٹر تھل کینال کی تعمیرکے لیے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے ساتھ معاہدے پردستخط سے انکار صرف پنجاب نہیں پورے پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زرعی زمینوں کی سیرابی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ گریٹر کینال تھل کو خوشاب، لیہ، بھکر، جھنگ اور مظفر گڑھ جیسے پسماندہ اضلاع کی زرعی زمینوں کو سیراب کرنا تھا۔ کینال کی تعمیر میں رکاوٹ ڈال کر ایک طرف کسانوں کی مشکلات میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف نہری نظام سے وابستہ افراد کے معاشی قتل کی سبیل کی جا رہی ہے۔ صوبے کے پسماندہ عوام کے ساتھ اس نا انصافی کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ معاہدے پر دستخط نہ کئے گئے توپنجاب حکومت صوبے کے ذاتی وسائل سے نہر کی تکمیل کے منصوبہ کو آگے بڑھائے گی۔ان خیالات کا اظہار وزیر خزانہ پنجاب سردار محسن خان لغاری نے محکمہ تعلقات عامہ پنجاب میں صوبائی وزیر برائے آبپاشی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔ صوبائی وزیر نے پریس کانفرنس کے شرکاءکو بتایا کہ گریٹرتھل کینال کا منصوبہ کوئی نیا منصوبہ نہیں۔ گریٹر تھل کینال کے منصوبے کا آغاز 1940ء میں ہو چکاہے تاہم تقسیم کے بعد سے اب تک یہ منصوبہ حکومت کی توجہ کا طالب تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی مدد حاصل کی۔ معمول کی کاروائی کے مطابق صوبے ترقیاتی مقاصد کے لیے بین الاقوامی ڈویلپمنٹ بینکوں سے قرض کے حصول کے لیے وفاق سے اجازت کے پابند ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے لیے ایک سال کی مدت درکار تھی اس دوران پنجاب میں رجیم کی تبدیلی بھی دیکھی گئی۔ 12دسمبر معاہدے پر دستخط کی آخری تاریخ تھی لیکن وفاق نے سندھ کے بے بنیاد الزامات کا سہار ا لیتے ہوئے پنجاب میں گریٹر تھل کی تعمیر کے معاہدہ پر دستخط سے انکار کر دیا۔ سندھ کے مطابق گریٹر تھر کینال کو سندھ کے پانی سے سیراب کیا جا رہا ہے جو سراسر غلط ہے۔ سندھ اور وفاق اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پنجاب گریٹر تھل کینال کو خود اپنے حصے کے پانی سے سیراب کر رہا ہے۔ 1991ءکے بین الصوبائی واٹر اکارڈمیں گریٹر تھل کینال کے لیے باقاعدہ حصہ مختص کیا گیا ہے۔ 2008میں ارساءکی جانب سے نہر کو پانی کی فراہمی کے لیے سرٹیفیکیٹ بھی جاری کیا جا چکا ہے۔ سردار محسن خان لغاری نے میڈیا کو بتایا کہ پانی کی تقسیم کے معاہدہ کے مطابق وفاقی حکومت باقی تینوں صوبوں کو ان کے حصے کی نہریں خود بنا کر دے چکی ہے جن میں سندھ میں رینی کینال، بلوچستان میں کھچی اور خیبر پختونخواہ میں چشمہ رایٹ بنک کینال شامل ہیں جبکہ پنجاب کو خود اپنے طور پر بھی نہر کی تعمیر کا موقع فراہم نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت پسماندہ اضلاع کے عوام کے ساتھ یہ نا انصافی ہر گز برداشت نہیں کرے گی۔یہ پہلی بار نہیں ہے جب پنجاب کے عوام کو سیاسی اختلافات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس سے قبل بھی وفاقی حکومت نے سیلاب کے دوران صوبے کو کوئی امدادی فنڈز دئیے نا قومی مالیاتی ایوارڈ سے واجب الاداءفنڈز منتقل کیے گئے۔ سیلاب نے پنجاب میں نہری نظام اور انفراسٹریکچر کو بھی بری طرح متاثر کیا لیکن وفاق نے اس کی کوئی ذمہ داری نہیں لی۔

ای پیپر دی نیشن