کراچی ( پ ر)کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای ) کے زیر اہتمام ''میٹ دی ایڈیٹرز '' سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا بلدیاتی نظام کو بااختیار بنانے میں وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین رکاوٹ بنتے ہیں، مفادات کے تصادم کی وجہ سے بلدیاتی نظام مستحکم نہیں ہوسکتا۔ صوبوں میں نئے انتظامی یونٹس بنانے ہوں گے۔ ملک میں صوبائی حکومتیں ٹوٹنے پر دو صوبوں میں انتخابات ہوں گے وفاقی سطح پرالیکشن مدت پوری ہونے پر ہی کرائے جائیں گے۔اپنی صوبائی حکومت تحلیل کرنا ناکامی کے اعتراف کے مترادف ہے۔ ملک میں معاشی صورت حال نے سیاست کو ایک قدم پیچھے دھکیل دیا ہے۔ تمام جماعتوں اپنے سیاسی و جماعتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک کی بقائ و سلامتی کی حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔ سوشل میڈیا نے احتساب کا معیار بدل دیا ہے۔ آج میڈیا ماضی سے زیادہ مضبوط اور فعال ہے۔ ہر لیڈر اپنی کارگزاری پر روزانہ کی بنیاد پر میڈیا میں جواب دہ نظر آتا ہے۔1988 سے انتخابات میں حصہ لے رہا ہوں۔ کوئی بھی الیکشن شفاف نہیں ہوا۔ مفاہمت سے زیادہ سچ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے،2018 کے بعد ہونے والے انتخابات کے اثرات سامنے ہیں۔ملک 5 سال پیچھے چلا گیا ہے اور معیشت کو واپسی لانے میں مزید 5 سال لگیں گے۔اتحادی حکومت چلانا آسان کام نہیں لیکن اس کے فیصلے بہت پائیدار اور دیرپا ہوتے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوری ماحول نہیں رکھتی ہیں۔ لیڈر شپ پر منحصر ہوتی ہیں۔ بلدیاتی نظام کے عدم استحکام میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے مفادات کا متصادم ہونا اہم وجہ ہے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی بیشی طلب و رسد کے تحت ہے اور حکومت کو افراط و تفریط کی صورت حال کنٹرول کرنے کے لیے بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تقریب کے اختتام پر سیکریٹری جنرل سی پی این ای عامر محمود نے معزز مہمان کو اعزازی شیلڈ اور چیئرمین سی پی این ای سندھ کمیٹی حامد حسین عابدی نے اجرک کا تحفہ پیش کیا۔ اس موقع پر سی پی این ای (سندھ ) کے صدر ڈاکٹر جبار خٹک سمیت اراکین اعجاز الحق، مقصود یوسفی، عبدالخالق علی، غلام نبی چانڈیو،طاہر نجمی، عارف بلوچ، شیر محمد کھاوڑ، محمود عالم خالد، سلمان قریشی، شاہد ساٹی، یونس مہر، منزہ سہام، محمد انور، ضیائ قریشی، عمران شہزاد، عاطف صادق شیخ، خوشی محمد ،ناصر خٹک اور رشید جمال نے شرکت کی۔