بچپن سے اےک فقرہ سنتے چلے آرہے ہےں کہ ’جنہےں لاہور نہےں تکےا اوہ جمےا ہی نہےں‘اور جب لاہور دےکھا،لاہور کے صبح و شام مےں سانس لےنے کا موقع ملا،اندرون لاہور کی گلےاں ،حوےلےاں ،شاہی بازار،لاہوری پکوان،مےلے ، لاہورےوں سے دوستی ،محبتےں اور گپےں لگانے کا موقع ملا تو دل نے نعرہ مستانہ لگاکے اقرار کےا کہ واقعی لاہور جےسا اور کوئی شہر نہےں ہے ۔ زےادہ وقت نہےں گزرا پچےس تےس سال پہلے تک لاہورایک ایسا شہر تھاجس کا مال روڈ رات کو تین بجے بھی کھلا رہتا تھا۔کھانے کے ڈھابوں، پارکوں ،بھاٹی،لوہاری،انارکلی اورٹےکسالی کے اطراف مےں جہاں کوئی چائے کی دکان کھلی ہوتی وہاں لاہوری رات گئے تک بیٹھے گپیں لگاتے،گنگناتے،مسکراتے اور زندگی کے درد ہنسی میں اڑاتے نظر آےا کرتے تھے۔خوش مزاج،ملنسار اور کھانے پینے ہنسے ہنسانے کے شوقین لاہورےوں کو ادبی ذوق شوق جےسے ورثے مےں ملا ہو ہر کہےں ادبی سےاسی اور معاشرتی مسائل پر گفتگو کرنا انہےں پسند تھا ےا ےوں کہےے کہ ےہ سب ان کے معمول مےں شامل تھا۔ٹانگے پہ بےٹھے ساتھ چلتے راہگےر اور دربار پہ دعا مانگتے مسافروں تک سے اےسے بات کرتے جےسے بچپن کے لنگوٹےا سے بات کررہے ہوں۔ادیبوں شاعروں نے اپنے حساب سے مختلف پلیٹ فارم بنائے ہوئے تھے۔ کچھ کا کسی چائے والی دکان پر اکٹھا ہونا معمول ہے، کچھ پاک ٹی ہا¶س پہنچ جاےا کرتے تھے۔ علمی ادبی حوالے سے ہونے والی مختلف اصناف کی بدلتی بگڑتی شکلیں۔ترقیاں اور حالات کے مطابق ڈھلتی سوچ زیر بحث رہا کرتی۔ نئے رویے اور نقطہ نظر سامنے آتے ۔ کالم نگار اور صحافےوں کے پاس کوئی نہ کوئی پریس کلب ٹائپ جگہ موجود ہوتی تھی جہاں وہ جمع ہوکر ملکی اور عالمی حالات پر اظہار خیال کے ساتھ اڑتی خبروں کی حقیقت معلوم کرتے۔ےہ اس شہر کی کشش ہی تو تھی کہ مےرے ملک کے ہر کونے سے ہر طبقہ فکر کے لوگ روزی کمانے،اور اپنا ہنر آزمانے جب جب لاہور پہنچے، داتا کی نگری مےں انہےں نام ملا،پہچان ملی اور پھر وہ لاہور مےں ہی بس گئے۔لاہور پوری دنیا میں اپنی مخصوص زندہ دلی کی وجہ سے مشہور ہے۔ لاہور کے لوگوں کا ایک خاص مزاج ہے جس کو لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ان کے حوالے سے کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی اور کر بھی دی جائے تو وہ الٹ ہی نکلتی ہے۔کبھی لاہور بارہ دروازوں کے درمےاں تھا،پھرانگرےز نے مال روڈ اور دوسری آبادےاں بسائےں،پھر نہ جانے لاہور کو کس کی نظر لگی کہ لاہور جسے باغات اور پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا اس لاہور مےں ہر طرف اےنٹ گارے اور پھر سےمنٹ اور ماربل کی بنی عمارتےں بننے لگےں ۔کےا ہی اچھا ہوتا کہ آج سے پچاس سال پہلے لاہور کی مخصوص پہچان برقرار رکھنے کے لےے کوئی حد بندی کی جاتی ،کوئی منصوبہ بندی کی جاتی اور لاہور کے ارد گرد کے علاقوں مےں زمےنوں کو بچا لےا جاتا ۔ہاوسنگ سوسائٹےاں بنانے کے لےے لاہور سے اےک مناسب فاصلے پر اجازت نامے دےے جاتے تو لاہور کی فضائےں لوگوں کے دل و دماغ کو معطر کرنے کا سبب بنتی رہتےں۔لےکن ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ارباب اختےار اےسا نہ سوچ سکے اور آج بھی اےسی سوچ کہےں نظر نہےں آرہی جس کا نتےجہ ہمارے سامنے کچھ ےوں آرہا ہے کہ لاہور اس وقت دنےا کے گندے ترےن شہروں مےں شمار کےا جانے لگا ہے ۔پچھلے کئی سالوں سے سردےاں شروع ہوتے ہی لاہور کی فضاوں مےں سانس لےنا مشکل ہورہا ہے ۔اب حکم جاری ہوا ہے کہ بچوں کو سانس کی بےمارےوں سے بچانے کے لےے جمعہ ہفتہ اور اتوار سکول بند رہا کریں گے۔ کےا ستم ظرےفی ہے کہ ہماری سرکارےں جب کسی مسئلے کا حل تلاش نہےں کر پاتی تو جواب مےں بچگانہ کام ضرور کر لےتی ہےں۔اگر لاہور کی فضائےں آلودہ ہےں تو سردےوں کے دنوں مےں لاہور کی سڑکوںسے اُن رکشو ں اور گاڑےوںکو ہٹانا چاہےے تھا کہ جو بے تحاشہ دھواں چھوڑ کے لاہور کی فضاوں کوذہر آلود کر رہی ہےں۔راوی کنارے درےا صدقے کے نام پر روزانہ ہزاروں ٹن پلاسٹک شاپر پھےنکنے والوں کے خلاف کوئی لائحہ عمل بناننا چاہےے ۔اُن فیکٹریوں اور کارخانوں کے خلاف اقدامات کرنے چاہے تھے جہاں پلاسٹک اور ٹائر جلا کے اےندھن حاصل کےا جارہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ درخت ہمارے لےے آکسےجن پےدا کرتے ہےں تو لاہور مےں جہاں جہاں کوئی جگہ باقی بچی ہے وہاں درختوں کے چھوٹے چھوٹے ذخیرے لگانے سے بھی فضا کو بہتر بنا ےا جاسکتا ہے ۔اب پنجاب سرکار کو ےہ فےصلہ کر لےنا چاہےے کہ اگلے پانچ سالوں مےں لاہور کی فضاوں کو صاف کرنے کے لےے کےسی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے ۔آج کے نوجوانوں کو شاےد پرانے لاہور کے سحر کا اندازہ نہ ہو اُن کے لےے اپنے ےہ دو شعر پےش کر کے اجازت چاہوں گا کہ
پوچھتے ہو کےسا ہے لاہور
پہلی محبت جےسا ہے لاہور
جس طرح ہےں پےار کرنے والےاں
مےں ےہ کہتا ہوں کہ وےسا ہے لاہور