مقتدر قوتوں کے مقابلے میں سیاسی جماعتوں کی پسپائی کی ایک بڑی وجہ سیاسی جماعتوں میں ڈیسک ورکروں کی کمی بھی ہے ۔ پاکستان کی فارن سروس چھوڑ کر سیاست میں آنے والے ذہین فطین عدنان رندھاوا ایک بہت اچھے ڈیسک ورکر تھے ۔ بطور ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات پاکستان تحریک انصاف ان کی کارکردگی بہت شاندار تھی ۔ ان کا عمران خان کیلئے اخباری خبروں اور اردو کالموں کی بریفنگ تیارکرنا اوراردو کالم نگاروں سے رابطے میں رہنا تحریک انصاف کیلئے بہت سود مند تھا۔ پھر انہوں نے اچانک پارٹی چھوڑ دی ۔صبا اکبر آبادی کا ایک شعر ہے ۔
صبا ترکِ محبت کر رہے ہو
محبت سے ضروری کام ہے کیا؟
سیماب صفت عدنان رندھاوا تحریک انصاف چھوڑ کر نچلے نہیں بیٹھے تھے ۔ وہ عام آدمی پارٹی کے جنجال کدے میں الجھ کر رہ گئے۔ دلی کے کجریوال کی عام آدمی پارٹی کی نقل پاکستان میں نہ چل سکی ۔ جماعت ختم ہو گئی ۔ عدنان رندھاوا بھی وکالت میں مصروف ہو گئے ۔ اخبارات میں کالم لکھنا شروع کیا۔اخبارات کے اپنے مسائل اور پالیسی ہوتی ہے ۔ موصوف وہاں بھی نہ چل سکے۔ ان دنوں کبھی کبھی فیس بک پر نظر آتے ہیں۔پارٹی چھوڑنے کے بعد انہوں نے ایک مرتبہ لکھا تھا:’’نہ کوئی نظریہ ، نہ کوئی پروگرام ، تحریک انصاف کا وقتی ابھار عمران خان کے پیدا کردہ ہسٹریا کا نتیجہ ہے جسے مسلم لیگ ن کے لمبے اقتدار کی عوامی بیزاری نے پانی دیا‘‘۔ نوجوان نسل کی اکثریت اس رائے سے متفق نہیں۔ آپ تبدیلی کے اس جذبے کو ایک وقتی ابھار نہیں کہہ سکتے ۔ یہ جنون عمران خان کی جہد مسلسل کا نتیجہ ہے ۔ پھر تبدیلی کا یہ نعرہ ایک مسلسل عوامی احساس محرومی کا رد عمل ہے ۔ ا ب یہ کہنا کہ عمران خان کے پیچھے کوئی تیسری طاقت ہے بالکل ایسی ہی صورت احوال ہے جیسے کوئی مولانا مودودی سے پوچھ بیٹھے کہ امریکی آپ کی کتابیں کیوں خریدتے ہیں اور پھر وہ ان کا کیا کرتے ہیں ؟ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سیاسی قائدین گھڑنے کی ایک ہی ٹکسال ہے ۔ بھٹو ، نواز شریف سے لے کر عمران خان تک وہیں کے میڈ ان پائے جاتے ہیں۔ اس تیسری قوت نے تعلیمی اداروں سے سٹوڈنٹ یونینز تک ختم کر دی تھیں تاکہ جاوید ہاشمی جیسے نڈر ، بہادر قائد پیدا ہی نہ ہو سکیں۔ آپ سیاسی طور پر عمران خان کی حکمت عملی اور کارکردگی سے اتفاق نہ بھی کریں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ انہوں نے ریاست اور سیاسی قیادت کے حوالے سے عوام کی توقعات کو بہت بڑھا دیا ہے ۔ احتساب کے نعروں اور اشرافیہ کی بجائے عوام کو سہولیات کی فراہمی کے وعدوں نے عوام کے دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن کر دیئے ہیں۔ 1970ء کے بعد ایک مرتبہ پھر عام آدمی کیلئے نظام کی تبدیلی کی بات کی گئی ہے ۔
توشہ خانہ عمران خان کی سیاسی زندگی کا ایک تاریک باب ہے ۔ انکے نامہ اعمال میں تحفے میں ملی گھڑیوں کا ذکر آتا ہے ۔ اہل خبر اس سلسلہ میں دو لفظوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق قانونی طور پر عمران خان کچھ ادائیگی کے بعد یہ تحائف Retainکر سکتے تھے ۔ Saleنہیں کر سکتے تھے ۔ لیکن عمران خان کے پرستار اس سلسلے میں کچھ سننے کو تیار نہیں۔ اس ذکر کوچھوڑتے ہیں ۔ اس کے تذکرہ سے بھی گھن آتی ہے ۔
ہم ابھی تک پاکستان کی جنگ آزادی کے آخری دنوں میں مسلم لیگ پر قبضہ جما لینے والے جاگیرداروں سے بھی اپنا پنڈ نہیں چھڑا سکے کہ ہمارا خون چوسنے والے دو اور طبقے آن موجود ہوئے ہیں۔ نئے استحصالی طبقوں میں پہلا طبقہ ٹائون ڈویلپرزکا ہے اور دوسرے ہیں تعلیم فروش ۔ ان دونوں کے ’’لطف و کرم ‘‘ سے رہائشی اور تعلیمی سہولتیں مڈل کلاس طبقے کی پہنچ سے بہت باہر ہو گئی ہیں۔ بھٹو نے خالصتاً سیاسی وجوہ پر تعلیمی اداروں کو رفاہی اداروں سے چھین کر غیر شعوری طور پر ایک قومی جرم کیا تھا۔ اس کے باعث تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر رفاہی اداروں کے ہاتھوں سے نکل کر منڈی میں پہنچ گیا۔ اب یہ سارا معاملہ خدمت سے تجارت بن گیا ہے۔ جاگیرداروں کی طرح یہ دونوں طبقے بھی ہماری سیاسی جماعتوں پر قابض ہیں۔ کوئی سیاسی پارٹی ان کے مفادات کے خلاف کوئی راہ اختیار نہیں کر سکتی ۔ اس سلسلہ میں تحریک انصاف کو بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں۔ عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ لفظ’’ منشور‘‘ ہماری سیاسی زندگی سے خارج ہو چکا ہے ۔ تحریک انصاف کے پاس تبدیلی کے اس سفر میں صرف عمران خان کا جوش ، جذبہ اور جنون ہے ۔ نئی صبح کا خواب کتنا دلفریب ہوتاہے کہ درویش ساغرصدیقی اپنے میلے کچیلے چیتھڑوں میں بھی یہ خواب دیکھنے سے باز نہ آسکے ۔
جس کے ماتھے پہ نئی صبح کا جھومر ہوگا
ہم نے اس وقت کی دلہن کو بہت یاد کیا
اگرچہ تبدیلی سے عمران خان کی مراد معاشرے کے سماجی رویوں میں تبدیلی اور نظم و نسق میں چند اصلاحات کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ اس غیر منصفانہ نظام پر حملہ کرنا نہیں چاہتے ۔ زمین کی حد ملکیت وغیرہ جیسے مسائل ان کے ذہن میں ہرگز نہیں۔ پھر بھی وہ سول سپرمیسی کی جنگ غیر شعوری طور پر بہت تیز کر چکے ہیں۔ اسے روکنا اب ان کے ہی نہیں کسی کے بھی بس کی بات نہیں۔ بڑے لوگوں کی مراعات اب چھوٹے لوگوں سے برداشت نہیں ہو پا رہیں۔ سپریم کورٹ میں نیب ترمیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم سے چھوٹ جانے والے ، قانون کے تحت پھر بھی مجرم ہیں ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی سب کچھ لوٹ کر گھر بیٹھ جائے ۔ بہت کچھ ہوگا اور بہت کچھ کرنا پڑے گا جناب۔ اب ’تشنگی اوس کے قطروں سے نہیں بجھ سکتی‘۔
٭…٭…٭