دسمبر کے سر د مہینے کی 3تا16 تاریخ پاکستان کے لیے اداسی کے ساتھ بہت سے اسباق بھی لاتی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ نہ تو ہم نے اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھا ہے اور نہ ہی اب ہمیں یاد ہے کہ یہی وہ دن ہیں جب پاکستان دو لخط ہوا تھا۔ ابھی کچھ روز قبل بھی ہمارے سیاستدان سقوط ڈھاکہ سے کچھ سیکھنے کی بجائے اس بحث میں الجھے ہوئے نظر آئے کہ یہ سانحہ کس کی غلطیوں کا نتیجہ تھا؟ کیا پچاس برس یہ جاننے کے لیے کافی نہیں تھے کہ کس سے کہاںکہاں اور کیا کیا غلطیاں ہوئیں؟ سب اپنے آپ کو مکمل بے قصور ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مجیب الرحمان کے چھ نکات کہاں سے آئے تھے یہ سب جانتے ہیں ۔ بھارتی مداخلت اور مجیب بھارت گٹھ جوڑ بھی ایک حقیقت لیکن کیا یہ سب ایک دن میںہو گیا تھا؟ نوبت یہاں تک کیوں اور کیسے پہنچی ؟ یہ مطالعہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے بھی کوئی ایسی سیاسی اور فوجی غلطیاں کی تھیں جنھوں نے مجیب اور بھارت کو پاکستان پر کاری وار کرنے کا موقع پلیٹ میں رکھ کر دے دیا۔ہماری قومی قیادت شائد اس وقت بھی 1965ء میں تھی جبکہ بھارت 1965 ء سے سبق حاصل کرکے آگے بڑھ چکا تھا۔
مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ جو پہلا بڑا سیاسی مسئلہ پیدا ہوا وہ ’’ بنگالی زبان‘‘ کو ’’ سپیشل سٹیٹس‘‘ دینے کا مطالبہ تھا۔ مغربی پاکستان کا اصرار تھا کہ صر ف اردو کو قومی زبان کا درجہ یا جا سکتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے کرنسی نوٹوں اور ڈاک کی ٹکٹوں سے بنگالی زبان کے خاتمے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔اس تحریک کو عروج 21 فروری 1952 ء کو ملا جب پولیس نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر گولی چلا دی اور دو طالب علم ہلاک اور بیسیوں زخمی ہو گئے۔( اس واقعہ کی یاد میں 1999 ء سے آج تک یونیسکو21 فروری کو مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر مناتی ہے) ۔ اگر کھلے دل کے ساتھ سوچا جائے تو ایک ملک کے لیے ایک سے زیادہ قومی یا دفتری زبانیں رکھنے میں کوئی ایسی بڑی قباحت نہیں تھی۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی دستاویزات کے مطابق 1955-60ء کے پانچ سالہ منصوبہ میں 55 فیصد آبادی رکھنے والے مشرقی پاکستان پر متحدہ پاکستان کے بجٹ کا 31 فیصد خرچ کیا گیا۔ 1970 ء کے الیکشن میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نیشنل اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری لیکن مغربی پاکستان کے سیاستدانوں اور فوجی حکومت نے انجانے تحفظات کی بنا پر مجیب کو حکومت دینے سے انکار کر دیا۔ 25 مارچ 1971 ء کو مشرقی پاکستان آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز کیا گیا۔ یہ آپریشن مکتی باہنی اور اس پارٹی کے خلاف تھا جسے مشرقی پاکستان میں مکمل عوامی حمایت حاصل تھی ۔ یہ آپریشن اپنے مقاصد تو حاصل نہ کر سکا لیکن بنگالی عوام کی احتجاجی تحریک مکمل طور پر تحریک آزادی بلکہ جنگ آزادی میں تبدیل ہو گئی اور بنگالی عوام کا جو حصہ متحدہ پاکستان کے حق میں تھا وہ بھی اس فوجی آپریشن کے بعد پاکستان کے خلاف ہو گیا۔
نومبر کے آخر سے بھارت واضح طور پر بین الا قوامی سرحد عبور کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔ ہماری قیادت نے یہ بہانہ اس وقت فراہم کر دیا جب پاکستان نے تین دسمبر کو مغربی محاذ پر بھارت پر زمینی اور فضائی حملہ کیا۔ مغربی پاکستان کی جانب سے گیارہ سے زیادہ مقامات پر بھارت پر حملہ کیا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ خطرہ مشرقی پاکستان کی جانب تھا، بھارتی افواج بھی مشرقی پاکستان پر حملے کے بہانے تلاش کر رہی تھیں اور ہم مغربی پاکستان کی جانب بھی محاذ کھول کر بیٹھ گئے۔ اس حملے کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مشرقی حصے میں افواج پر سے پریشر کم کیا جائے اور دوسرا یہ کہ اس وقت کی پاکستان حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی حصے سے کیا جائے ۔یہ دونوں مقاصد تو حاصل نہ ہو سکے لیکن بھارت کو انٹر نیشنل بارڈر پار کر کے پاکستان پر حملہ کرنے کا اخلاقی جواز ضرور مل گیا ۔ اگر خود پہل کر کے اس قسم کا کوئی قدم اٹھانا ہی تھا تو اسکا بہترین وقت اپریل سے جون کے مہینے تھے۔ ان مہینوں میں کوہ ہمالیہ میں پاکستان اور چین کے درمیان زمینی راستے کھلے اور آسان ہونے کے علاوہ 1971 ء کے آغاز میں بھارتی سینا کا بڑا حصہ آسام، آندھرا پردیش اور جھانسی کے علاقوں میں تعینات تھا۔ پنجاب ہریانہ اور اتر پردیش میں فصلوں کی کٹائی ہو رہی ہوتی ہے۔ اگر اس وقت پاک بھارت جنگ چھڑ جاتی تو بھارت کو اپنی فوج کی نقل و حمل کے لیے جس پیمانے پر ریل اور زمینی ٹرانسپورٹ درکار تھی اس سے بھارت کی فصلوں کی کٹائی شدید متاثر ہوتی اور اسے قحط کا سامنا کر نا پڑ سکتا تھا۔ اور افواج کی نقل و حمل کے لیے بھی بہت وقت درکار ہوتا جو پاکستان کے حق میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتا تھا۔
وقت حالات اور ہماری غلطیوں سے فائدہ اٹھانا ہمارے دشمن کا حق تھا جو اس نے کیا۔ لیکن ہم اب بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو پچاس برس قبل کر رہے تھے۔ کہیں لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کے لیے عدم برداشت بڑھ رہی ہے تو کہیں وسائل کی تقسیم کے معاملے میں چھوٹے صوبوں کو اب بھی اپنے ساتھ ناانصافی ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔ ہماری سیاسی قیادت ان نا انصافیوں یا غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی بجائے پچاس سالوں بعد بھی ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے اور اپنے آپ کو مکمل بے قصور ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اگر ہماری گزشتہ تمام حکومتوں اور سیاستدانوں نے کبھی کوئی غلطیاں کی ہی نہیں تو آج دو لخت ہونے کے بعد بھی باقی ماندہ پاکستان اس حال میں کیوں ہے؟