1857ء کی جنگ آزادی جسے انگریز بغاوت کا نام دیتے ہیں ہندوستان کی طرف سے انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی سب سے بڑی کوشش تھی۔ ویسے تو اس کی بہت سی وجوہات تھیں لیکن جس چیز نے فوری ردِعمل پر مجبور کیا وہ مذہبی تحقیر تھی۔ فوج میں ایسے کارتوس متعارف کرائے گئے تھے جن پر چربی لگی تھی۔ استعمال سے پہلے لبوں سے گیلا کر کے یہ چربی اُتارنا پڑتی تھی۔ افواہ یہ پھیلی کہ یہ چربی گائے اور سوّر کی ہے یوں اس چربی کو چھونا اور لبوں سے گیلا کرنا ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے حرام تھا لہٰذا سپاہیوں نے اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ جب انہیں اس پر مجبور کیا گیا تو وہ بغاوت پر اُتر آئے۔ یہ بغاوت جلد جنگ آزادی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ جنگ ڈم ڈم (میرٹھ) کے ڈپو سے شروع ہوئی۔ 22 جنوری 1857ء کو لیفٹیننٹ رائٹ نے اپنے کمانڈنگ آفیسر میجر ابتین کو اطلاع دی کہ ہندوستانی سپاہیوں کے تیور ٹھیک نہیں اور وہ حکم عدولی پر اُتر آئے ہیں۔ میجر ابتین نے تمام ہندوستانی سپاہیوں کو باہر اکٹھا کیا جہاں تمام عہدیداروں نے پریڈ کے دوران ایسے کارتوس اور اس پر لگی چربی کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا لیکن نجانے کیوں میجر ابتین نے ایسے لوگوں کے خلاف کوئی انضباطی یا اصلاحی کارروائی نہ کی۔ 26 فروری 1857ء کو 19 مقامی انفنٹری کے سپاہیوں نے بھی کارتوس کو ہاتھ لگانے سے انکار کر دیا۔ انہیں بھی کچھ نہ کہا گیا۔ جب یہ حکم عدولی مزید پھیلنے لگی تو 16 مارچ کو 2 مقامی انفنٹری کے دو سپاہیوں کا کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں 14 سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ مارچ کو 29 مقامی انفنٹری کو پریڈ کے لیے جمع کیا گیا۔ جب پریڈ پوزین پر یونٹ کھڑی ہوئی تو اسے ہتھیار زمین پر رکھنے کا حکم دیا گیا۔ جب ہتھیار رکھے گئے تو یونٹ ختم کر دی گئی۔ 21 اپریل کو جمعدار ایشور پانڈے جو سپاہی منگل پانڈے کے فائر کے وقت وہاں موجود تھا، پر مقدمہ چلایا گیا کہ فائر کے وقت اس نے منگل پانڈے کو قابو کیوں نہیں کیا لہٰذا اسے بھی پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
اس کے بعد انبالہ چھائونی میں کچھ لوٹ مار کے واقعات رونما ہوئے۔24 اپریل کو لیفٹیننٹ کرنل مائیکل سمتھ کمانڈنگ آفسر میرٹھ میں گیا۔ جب یونٹ جمع ہو گئی تو اس میں سے 90 سواروں کو چن کر باہر نکالا گیا۔ کارتوس استعمال کر کے دکھانے کا حکم دیا ان میں سے 85 سواروں نے کارتوسوں کو ہاتھ لگانے سے انکار کر دیا لہٰذا اُن کا کورٹ مارشل کر کے 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ 9 مئی کو پوری میرٹھ چھائونی کو جمع کر کے سب کے سامنے یہ کورٹ مارشل کی سزا سنائی گئی۔ ان 85 سواروں کو پوری چھائونی کے سامنے ہتھکڑیاں پہنائی گئیں۔ پائوں میں بیڑیاں ڈالی گئیں۔ ان کی وردی پر لگے یونٹ کے بٹن اور کندھے کے اعزازی نشان چھین لئے گئے۔ ان کی وردیوں کی قمیضوں کو پیچھے سے رائفل کی سنگینوں سے پھاڑ دیا گیا۔ تمام چھائونی کے سامنے یہ کارروائی پانچ گھنٹے جاری رہی۔ ایک دردناک منظر تھا۔ انگریزوں کو ہندوستان فتح کر کے دینے والے اور انگریزوں کی تابعداری میں جان قربان کرنے والے سپاہی، اس وقت زیر عتاب تھے۔ جان عزت اور مذہب سب کی بُرے طریقے سے توہین کی جا رہی تھی اور یہ لوگ مجبور و بے بس بیڑیوں میں کسے ہوئے اپنے ہی وطن میں مجرم اور غداری کے الزام میں جکڑے کھڑے سوائے آنسو بہانے کے کچھ نہ کر سکتے تھے۔ تمام سزا یافتہ جوان زار و قطار روتے رہے اور چھائونی کے بقیہ جوانوں کے لیے یہ بے عزتی ناقابل برداشت تھی۔ اس توہین آمیز سلوک کی خبر پورے شہر میں پھیل گئی۔ چھائونی میں مقیم فوجیوں کے اہل و عیال کو بھی پتہ چلا۔ ہوا یوں کہ جب جوان گرائونڈ میں جمع ہوئے تو فیملی کوارٹرز سے جو کہ نزدیک ہی تھے بچے باہر نکل آئے۔ ان کا خیال تھا شاید ڈرل ہو رہی ہے لیکن جب سولجرز کی بے عزتی شروع ہوئی اور ان کی وردیاں پھاڑی جا رہی تھیں تو ایک کہرام مچ گیا۔ خواتین بھی باہر نکل آئیں۔ جیسے ہی انہیں اپنے خاوندوں کی بے عزتی اور قید کا پتہ چلا تو انہوں نے زور زور سے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر سب کو پتہ چل گیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ متاثرہ خواتین کی رونے پیٹنے کی آوازیں سن کر علاقے کی تمام خواتین جمع ہو گئیں۔ حولدار سیتا رام جو کہ قیدی بن چکا تھا کی بیوی ذرا تیز طراز تھی۔ اس نے روتے ہوئے سب خواتین کو شرم دلائی کہ اپنے خاندوں کو مجبور کریں کہ سب ملکر اپنے ساتھیوں کو چھڑائیں ورنہ باقیوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو گا۔ جب بقیہ جوان شام کو گھروں کو گئے تو گھروں میں کچھ نہ پکا تھا۔ ان کی خواتین نے بجائے کھانے کے چوڑیاں خاوندوں کے سامنے پھینک دیں۔ لہٰذا تمام جوان واپس لائنوں میں آئے۔ وہاں سے اپنے ہتھیار اٹھائے اور حملہ کر کے اپنے تمام ساتھیوں کو چھڑا لیا۔ اسی دوران 11 مقامی انفنٹری اور 20 مقامی انفنٹری بھی بغاوت کر کے 3 لائٹ کے ساتھ آ ملیں اور یہ تمام سپاہی دلی کی طرف قیادت کی تلاش کے لیے روانہ ہو گئے۔ لیکن اس وقت کی بیس کروڑ کی مقامی آبادی اور 37 لاکھ مربع کلومیٹر کے ہندوستان میں کوئی قیادت نہ مل سکی۔ دو دنوں کے اندر اندر بغاوت پشاور تک پہنچ گئی۔ سب لوگ دلی کی طرف دوڑے۔ پنجاب کے سکھ سردار بھی بغاوت میں شامل ہوئے اور احکامات کے لیے دلی گئے مگر کاش …کوئی راہبر ہی نہ مل سکا اور قوم غلام ہو گئی۔ اس بغاوت میں سب سے اہم کردار فوجیوں کو فیملیز کا تھا جنہوں نے متحدہ طور پر اپنے خاوندوں کو غیرت دلا کر تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔
اور خواتین نے تاریخ کا رخ موڑ دیا
Dec 12, 2022