وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے جب 27 اپریل کو اپنی وزارت کا حلف اٹھایا تو وہ 34 سال کی عمر میں دنیا کے کم عمر ترین وزیر خارجہ تھے پاکستان میں کچھ حلقے ان کے وزیر خارجہ بننے پر خوش نہیں تھے خصوصاً پی ٹی آئی تو بالکل بھی خوش نہیں تھی بلکہ اگر پی ٹی آئی راہنماوں کے اس وقت کے اخباری بیانات کودیکھاجائے تو انہوں نے کہا تھا کہ اتنی اہم وزرات بلاول بھٹو نہیں چلا پائیںگے، لیکن پاکستان سمیت دنیا بھر نے دیکھا کہ ایک نو عمر وزیر خارجہ نے کس طرح حکمت عملی اور ویژن سے اپنی بہترین سفارت کاری کے زریعے پی ٹی آئی حکومت کی وجہ سے دنیا کے ساتھ خراب ہوتے تعلقات کو کس طرح بہتر کیا اور ملک کا امیج بھی درست کیا، بلاول بھٹو ایک بہترین سفارت کار کیوں کہلائے جارہے ہیں اس کی ایک بنیادی وجہ تو ان کا ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور بینظیر بھٹو کا بیٹا ہونا ہے کیونکہ وہ دونوں سفارت کاری کے ماہر تھے، اور دوسری وجہ بلاول کا بیرون ملک سے اعلٰی تعلیم یافتہ ہونا ہے۔ لیکن اس کی ایک تیسری وجہ بھی ہے، وہ یہ کہ بلاول بھٹو زرداری کے والد آصف علی زرداری چاہتے تھے کہ وہ پی ڈی ایم کی حکومت کے وزیرخارجہ بن کر نہ صرف بین الاقوامی رہنماؤ ں سے ملاقاتیں کریں اور پاکستان کا امیج درست کریں بلکہ عالمی سیاست اور طرز حکومت کا تجربہ بھی حاصل کریں۔ یہ تجربہ آگے جا کر انہیں ملک کا وزیراعظم بنانے اور اس عہدے پر بہتر کام کرنے میں مدد دے گا۔ اب آتے ہیں اس سوال کے جواب کی جانب کہ انہوں اپنی وزرات خارجہ کے دور میں کیا کامیابیاں سمیٹیں اور کیا وہ اپنی وزارت سے منسلک قومی اور ذاتی اہداف حاصل کر سکے؟یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب نہ صرف بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی مستقبل کے لیے بلکہ پاکستان کی نئی آنے والی حکومت کے لیے بھی اہم ہے کیونکہ موجودہ حکومت کے بقول وہ خارجہ حکمت عملی اور تعلقات کو نئی بنیادوں پر استوار کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کے وزیر خارجہ بننے کے بعد امریکہ سے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے پاکستانی سفارت کاری میں ایک نئی روح پھونکی ہے اور اپنی وزارت کے قلیل عرصے میں متعدد اہم ممالک کے دورے اور کئی خاص اجلاسوں میں شرکت کے ذریعے بین الااقوامی معاملات پر پاکستان کا موقف اجاگر کیا ہے۔
چین کے ساتھ سی پیک پر بریک تھرو ہوا، جموں کشمیر پر بڑے موثر انداز میں عالمی لیڈروں کے ساتھ بات چیت کی گئی۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ان کی اور ان کے ساتھ دوسرے حکومتی اتحادیوں اور اداروں کی کارکردگی بھی بہتر ہوئی ہے’پہلی وزارت کے طور پر ان کا تجربہ نہ صرف ٹھیک رہا ہے بلکہ ماضی کے کئی جہاندیدہ وزیروں سے بھی بہتر رہا، یوکرین اور امریکی سائفر جیسے مسائل پر انہوں نے ایک سٹیٹسمین طرز کی پوزیشن لی ہے۔ جب کہ وہ مقامی معاملات میں بھی اپنے پیشرو وزرائے خارجہ کی طرح ملوث نہیں رہے بلکہ خود کو ایک وزیر خارجہ کے کردار تک محدود رکھا ہے۔‘وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ جرمنی کو بھی ان کی ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں کیونکہ اس موقع پر جرمنی نے کشمیر کے حق میں بیان جاری کیا تھا جس پر انڈیا نے احتجاج بھی کیا۔
انڈیا سے تعلقات اور کشمیر پر قبضے کے حوالے سے بھی بلاول بھٹو کا موقف بڑا واضح ہے ان کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان تین جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے 2019 ء میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد دیگر انڈین شہریوں کے لیے کشمیر میں رہائش اور جائیدادیں خریدنے کا راستہ کھل گیا تھا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ 2010 ء میں ان کی پارٹی کی حکومت نے انڈیا کے ساتھ تجارت شروع کی تھی۔ اس وقت انڈیا میں من موہن سنگھ وزیراعظم تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی خطرہ مول لینے کے لیے تیار تھے کیونکہ ہم جانتے تھے کہ وہاں ایک معقول شخص موجود ہے جو ہمیں مثبت جواب دے گا تاہم ’بدقسمتی سے آج وہ گنجائش موجود نہیں۔ یہ ایک مختلف انڈیا ہے۔‘
افغانستان کے حوالے سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری چاہتے ہیں کہ دنیا طالبان کے ساتھ رابطے میں رہے۔’ہم نے ماضی سے سیکھا ہے کہ جب ہم اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے اور اس کو نظر انداز کرتے ہیں تو ہم اپنے لیے غیر ارادی طور پر منفی نتائج اور مزید مسائل پیدا کر رہے ہوتے ہیںوہ وہاں پر انسانی حقوق کی بہتری خصوصاً خواتین کو بہتر انداز میں دیکھناچاہتے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری چاہتے ہیں کہ افغانستان میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے مسائل حل ہوںاور وہاں کی حکومت اپنے وجود کا بہتر جواز پیش کرے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے سعودی عرب کے دورے کے دوران سعودی حکام سے اہم ملاقاتیں کی تھیں۔ان ملاقاتوں کے دوران انہوں نے دونوں ممالک کے مابین سفارتی، سیاسی اور سکیورٹی امور پر تبادلہ خیال کیا۔سعودی عرب روانگی سے قبل بلاول بھٹو زرداری مصر کے شہر شرم الشیخ میں بھی گئے تھے جہاں پر انہوں نے اقوام متحدہ کے زیراہتمام ماحولیاتی کانفرنس کی سائیڈلائنز پر یورپی یونین اور دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے عالمی رہنماو ٔں سے باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی۔بلاول بھٹو زرداری اس سے قبل چین، امریکہ، متحدہ عرب امارات، ایران اور جرمنی کے دورے بھی کر چکے ہیں۔ ان دوروں کے دوران انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے اور عالمی طاقتوں کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلاول نے تمام مشکلات اور محدود اختیارات کے باوجود بہتر کارکردگی دکھائی ہے کیا اتنے کم عرصے میں اس سے بہتر سفارت کاری ہو سکتی ہے اس سوال کا جواب ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔