پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں سوائے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے شائد ہی کوئی حکمران ایسا گزرا ہو جس نے آئین و قانون، امانت و دیانت اور قوم کے ساتھ سچ بولا ہو۔ ان کے کارناموں پر نظر دوڑائیں تو انسانیت شرماجاتی ہے۔ پاکستان کے تین سابق حکمرانوںجن میں نواز شریف،یوسف رضا گیلانی اور آصف زرداری شامل ہیں، پر توشہ خانوں سے غیر قانونی تحائف حاصل کرنے کا مقدمہ چل رہا ہے۔ موجودہ قوانین جن کا سرسری تذکرہ مندرجہ بالا سطور میں موجود ہے کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا اور کروڑوں روپے مالیت کے تحائف کو ایک ہی سانس میں ڈکار لیا گیا۔ مال اور اقتدار کو اپنے گھڑے کی مچھلی سمجھنے والے جناب عمران خان نے بھی اس معاملے میں جو کارنامے سر انجام دیے وہ ”پڑھتا جا اور شرماتا جا“ کے مصداق جگ ہنسائی کا موجب بھی۔جس طرح ہم نے آغاز میں چند گزارشات کی تھیں کہ انسانی سماج اور اس کی بہتری کے لیے انسانوں میں چند بنیادی خصائص کا ہوناانتہائی ناگزیر ہے اور اگر کسی معاشرے کا بالائی طبقہ کہ جسے قرآن نے ”مترفین“ کے نام سے یاد کیا ہے اگر ان خصائص کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ معاشرہ کبھی بھی عروج کے راستے پر چل نہیں سکتا۔ پاکستان کے حکمران چاہے وہ سیاسی ہوں یا فوجی، چاہے بیوروکریسی کو یا پھر عام آدمی ان خصائص کہ جن میں سچ اور سچائی، وعدے کی پاسداری، کاروباری معاہدوں میں لین دین، امانت و دیانت، اقربا پروری، رشوت، میرٹ اور اس فہرست کو جتنا بھی لمبا کرتے چلے جائیں تو اوپر سے لے کر نیچے تک الا ماشاءاللہ چند لوگوں کے سوا پچھلے 75سالوں میں جونکوں کی طرح پاکستان کے خون کو چوسا بھی گیا اور لوٹا بھی گیا اور اس کی مثال کے لیے صرف توشہ خانہ ہی کافی ہے۔ جبکہ بقیہ کرپشن کے کیسز کو معاف کروانے کے لیے نیب ترمیمی آرڈیننس بل پارلیمنٹ سے منظور کروائے جاچکے ہیں تاکہ غریب عوام کی زندگی کو مزید اجیرن بنادیا جائے اور حرام مال کو پارلیمنٹ کے ذریعے حلا ل کا درجہ دے دیا جائے، یہ ہے وہ گھناﺅنا کھیل جو جاری ہے اور جاری رہے گا کہ جب تک عوام میں پختہ شعور پیدا نہ جائے جبکہ اسی حوالے سے ہماری تاریخ بہت ہی سنہری اور شاندار تاریخ ہے۔حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری کے خلاف شکایت آئی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے گورنر کو طلب کیا اور پوچھا:”ابو موسیٰ! میں نے سنا ہے تجھے جو تحائف ملتے ہیں وہ تم خود رکھ لیتے ہو بیت المال میں جمع نہیں کرواتے“؟ حضرت ابو موسی اشعریؓ بولے! حضور وہ تحائف مجھے ملتے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا! وہ تحائف تجھے نہیں تمہارے عہدے کو ملتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ کو گورنر کے عہدے سے معزول کیا، ٹاٹ کے کپڑے پہنائے، ہاتھ میں چھڑی دی اور بیت المال سے سینکڑوں بکریاں دیکر کہا کہ جاﺅ اور اب سے بکریاں چرانا شروع کر دو۔ابو موسیؓ ہچکچانے لگے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا! تمہارے باپ دادا یہی کام کرتے تھے یہ تو حضورﷺ کے وسیلے سے تجھے گورنری مل گئی تھی۔ کافی عرصے بعد حضرت عمر خود جنگل میں چلے گئے تو دیکھا بکریاں چر رہی ہیں، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ایک ٹیلے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور انکے چہرے کا رنگ زرد پڑ چکا ہے۔حضرت عمرؓ نے فرمایا سنا ابو موسیٰ! اب بھی تجھے تحفے ملتے ہیں؟ حضرت ابو موسیٰ اشعری بولے۔ حضور! مجھے سمجھ آ گئی ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ توشہ خانے کا پچاس سالہ ریکارڈ پبلک کیا جائے اور جنہوں نے اس ملک کے ساتھ یہ گھناﺅنا کھیل کھیلا ہے، ان کو قرار واقعی سزادی جائے۔آئیے! ان چہروں کو پہچانیے جو ہر دفعہ ایک نئے روپ میں سادہ لوح عوام کو اپنے پر فریب نعروں سے بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
توشہ خانہ: ایک امانت
Dec 12, 2022