کراچی میں میرے عزیز دوست ڈاکٹر طلعت خورشید موسیقی، گلوکاری اور شعر و شاعری سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کراچی میں براڈکاسٹر کی حیثیت سے عالمی سروس سے منسلک رہے ، درس و تدریس سے تعلق رہا اور آج کل طب کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔کچھ روز قبل ڈاکٹر موصوف نے اپنی غزل بھیجی جس کا مطلع ہی ایسا ہے گویا وطنِ عزیز کی بات ہو رہی ہے۔یہ غزل پڑھتا ہوں اور بے چین ہوتا ہوں ۔
لگائیں آگ بد قسمت مکیں خود ہی مکانوں میں
خدا دشمن کو بھی ڈالے نہ ایسے امتحانوں میں
خزاں کا رنگ ہے ہر سو وطن کے گلستانوں میں
نہ گُل ہیں شاخساروں پر نہ طائر آشیانوں میں
بُجھا ہو دل تو پھر کوئی کشش باقی نہیں رہتی
گُلوں کی مُسکراہٹ میں عنادل کے ترانوں میں
زمین کے رہنے والے تجھ کو کچھ اس کی خبر بھی ہے
تےری بربادیوں کے تذکرے ہیں آسمانوں میں
الہٰی قوم کے بچوں کو دے احساس غیرت کا
وطن کا درد پیدا کر وطن کے نوجوانوں میں
پوری غزل ہی ہمارے آج کے حالات کی عکّاس ہے مگر آخری شعرجھنجھوڑ دینے والا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریکِ پاکستان کی آبیاری میں مُسلم نوجوانانِ ہند کا بہت بڑا ہاتھ ہے خصوصاََ علی گڑھ مُسلم یونیورسٹی کے طلباءاس میں پیش پیش تھے جب کہ یہ بات عیاں تھی کی علی گڑھ کسی صورت پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتا۔اُس وقت قائدِ اعظم رحمةاللہ علیہ نے مسلمانوں میں وہ ولولہ تازہ کیا کہ تمام نوجوانان ، مستقبل میں انفرادی و ذاتی سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر اجتماعی فائدے کے لئے سر بکفن ہو گئے۔خود بابائے قوم نے اکثر اپنی تقاریر میں نوجوانوں کو پاکستان کا سرمایہ کہا اور ان سے بہت امیدیں وابستہ کیں۔قرار دادِ پاکستان پیش ہوئی اور محض سات سالوں میں اِس قرارداد نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔اِس دوران پورے ہندوستان میں قائدِ اعظم رحمةاللہ علیہ کے جلسے ، خطابات اور تقاریر میں جا بجا نوجوانوں کا ذکر ہوا۔پھر ان نوجوانوں نے خود سے وابستہ توقعات پر پورا اُتر کر بھی دکھایا .... لیکن کامیابی حاصل ہونے اور رحلتِ قائد کے بعد پاکستان کو آج تک کوئی ایسا راہنما نہ مل سکا جو نوجوانوں کو پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کا اہل بناتا۔ ایک کے بعد ایک دورِ حکومت میں نوجوانوں کو ” مُستقبل کا معمار “ ضرور گردانا گیا مگر اِس ” معمار “ کو تےار کرنے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا۔ ہر ایک دورِ حکومت میں باتیںتو فلک کی ہوئیں لیکن قصے زمیں کے رہے۔ نوجوانوں سے امیدیں وابستہ کرنے کے دعوے بھی بہت ہوئے مگر عملاََ نوجوانوں میں وطنی غیرت و حمّیت اُبھارنے کا کوئی قابلِ عمل پروگرام وضع نہ ہو سکا۔والدین سے لے کر اساتذہ تک اور تمام تعلیمی اداروں کا مقصدِ تعلیم صرف ایک ہے: ” حصولِ معاش “۔ہر ایک بچہ محض اس لئے تعلیم حاصل کرتا ہے کہ وہ اچھی نوکری حاصل کر سکے۔والدین اپنی اولاد کو انفرادی و ذاتی بہبود کی طرف متوجہ رکھتے ہیں اور اساتذہ کی راہنمائی بھی یہی ہوتی ہے کہ کون سی ڈگری آپ کو زیادہ مالی فائدہ پہنچا سکتی ہے .... پاکستان ، اس کی ترقی، اس کا فائدہ .... یہ ثانوی نہیںبلکہ بہت آگے کہیں دسویں بارہویں نمبر پر آتا ہے۔ایسے میں میں ڈاکٹر طلعت کی زبانی یہ ہی دعا کر سکتا ہوں :
الہٰی قوم کے بچوں کو دے احساس غیرت کا
وطن کا درد پیدا کر وطن کے نوجوانوں میں
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد دو نسلیں جوانی سے بڑھاپے کو آن پہنچیں اور یہی وہ مکین تھے جنہوں نے پاکستان کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دی۔اب نئی نسل میں غیرت و حمیت جگانے کا وقت آ گیا ہے ۔سماجی رابطوں کے ذریعے نوجوانوں کوحقائق سے آگاہ کرنے اور مناسب حکمتِ عملی سکھانے کے بہترین مواقع موجود ہیں۔تعلیمی درسگاہیں ذاتی فائدے تک محدود ہیں مگر متنوع سماجی رابطے نوجوانوں میں اجتمائی بہبود کا شعور جگانے میں اپنا بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔