آج کے اس گہما گہمی اور افراتفری کے دور میں ہر طرف خود غرضی ,لالچ, چالاکی اور حسد و نفرت کی بے رحمی متحرک و کار فرما دکھائی دیتی ہے. ایسے میں اگر کوئی خلوص نیک فطرت اور صالح انسان سے واسطہ پڑ جائے تو یقین ہی نہیں آتا کہ آج کے اس بے ایمانی کے دور میں بھی کوئی اچھا آدمی زندہ باقی بچا ہوا ہے .یعنی آج انسانیت کا اعتبار ختم ہوگیا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ہر روز اپنے اردگرد کے انسانی رویوں کا غیر انسانی سامنا اس تواتر اور تیزی سے مشاہدہ و تجربہ کرتے ہیں کے اگر کہیں کسی انسان سے واسطہ پڑ جائے. تو یقین ہی نہیں آتا. یہ انسانی المیہ ایک دن میں رونما نہیں ہوا .انسان کو اس مقام پر آتے آتے مجھے صدیاں بیت گئی ہیں . تب جا کر انسانوں میں جانوروں کے رویے اور عادات نے اس حد تک نشوونما پائی ہے. اگر انسان اپنا خود گہری نظر سے مشاہدہ کرے اور جائزہ لے کہ اس میں اب تک کتنی انسانیت باقی رہ گئی ہے؟ تو میرا خیال یہ ہے کہ وہ خود اندازہ لگا لے گا کہ اس کے اندر کے انسان کی انسانیت کا جنازہ اٹھے ہوئے بھی کئی صدیاں گزر گئی ہیں. پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسان کو انسانیت کا ایک ایسا صراط مستقیم عطا فرمایا ہے جو اس کے ضمیر کے اطمینان اور روحانی تسکین کا بیش قیمت سامان مہیا کرتا ہے. لیکن انسان ہے کہ وہ وقتی فائدے کو پیش نظر رکھتا ہے.
اور مستقل اور اخروی فائدے کو پس پشت ڈال کر اپنے لیے خود ہی بچھتا وے کا گہرا کنواں کھود لیتا ہے. اگر انسان انسانیت کے حوالے سے حساس نہیں ہے تو پھر وہ کیسا انسان ہے؟
یقینا پھر وہ انسان نہیں رہا بلکہ اپنے اندر منافقت چلا کی حرص و ہوس خود غرضی اور ظلم و زیادتی کے بے شمار چھپائے پہلو چھپائے ہوئے ایک اداکار بنا ہوا ہے . ایسا اداکار جو اپنے فائدے کے لئے تو انسان ہے اور اگر فائدہ نہ ہو تو وحشی جانور. !آپ اپنے اندر تلاش کریں کہ کتنے فیصد آپ انسان باقی رہ گئی ہیں . آپ نے کتنا احساس ہے. کتنا انسانیت کا درد ہے .آپ کس حد تک جا کر دوسروں کی خدمت کر سکتے ہیں .
میں نے تو ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے کہ حادثہ ہوا ہے اور بہت سے انسان زخمی ہوئے ہیں اور وہ اپنی گاڑی کو مزید ریس دے کر وہاں سے آگے نکل گئے ہیں. کیا ہمارے نبی کے اخلاق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے؟انسان کی قیمت اس کے احساس سے ہوتی ہے.اگر آپ اپنی زندگی کو مثالی بنانا چاہتے ہیں. تو احساسات کو حقیقی انسانی پیرہن عطا کریں.دوسروں کے فائدہ بخش بن جائیں.انسانیت کے لئے پر خلوص ہو جائیں .انسان کا انسانیت کے لئے حساس ہونا ہی حساسیت ہے.اور یہی تو زندگی ہے۔