الیکشن کمیشن کے بار بار دباﺅ کے بعد تحریک ِ انصاف انٹرا پارٹی الیکشن پر تیار ہوگئی ، یہ الیکشن اس حال میں ہوئے کہ ایک روز پہلے تک پارٹی میں کسی کو پتہ تک نہ تھا کہ کس عہدے کےلئے کون سا امیدوار سامنے آیا ہے؟ الیکشن کے روز اچانک اعلان ہوا کہ مرکزی سربراہ اور صوبائی سربراہان سبھی بلامقابلہ منتخب ہوگئے ہیں ۔ ان کا مقابلہ کرنے کےلئے کسی دوسرے شخص نے کاغذات نامزدگی داخل نہیں کروائے ۔ اس پرسیاسی لوگوں کا ہاسا نکل گیا۔ لگتا ہے کہ تحریک ِ انصاف عام انتخابات میں جس لیول فیلڈ کا مطالبہ کرتی ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ انٹراپارٹی الیکشن کی طرح تمام قومی و صوبائی نشستوں پر صرف تحریک انصاف کے امیدوار کاغذات داخل کریں ۔اور باقی ساری پارٹیاں اس کے مقابلے کےلئے میدان میں نہ اتریں ۔ اگر تحریک ِ انصاف کی یہ خواہش پوری کردی گئی تو پھر وہ انتخابی نتائج کو منصفانہ، غیرجانبدارانہ اور شفاف قرار دیں گے ۔ ورنہ دھاندلی یا دھاندلا کا شور مچاکر ایک بار پھر ڈی چوک کا رخ کرنے کی کوشش کریں گے ۔
یہ ہے تحریک انصاف کا شفاف الیکشن کا طریقہ کار ۔ یہ پارٹی جمہوریت کی مالا تو بہت جپتی ہے ، لیکن اس کی شفاف جمہوریت کا بھیانک چہرہ لوگوں کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے ۔ تحریک انصاف کے اندر سے ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں دو ، تین نئی پارٹیاں سامنے آئی ہیں ۔ جنہوں نے الیکشن کا ڈھونگ رچانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی ، جس شخص کا جہاں زور لگا ، وہ پارٹی کے اس گروپ کا سربراہ بن بیٹھا ۔ تحریک انصاف نے تین ٹرم پشاور پر حکومت کرتے گذاریں۔ ساڑھے تین برس کیلئے اسے وفاق کی حکومت چلانے کا موقع بھی ملا ، سب جانتے ہیں کہ 2018ءمیں آرٹی ایس بند کرکے جعلی نتائج مرتب کئے گئے ۔ مگر تحریک انصاف کو اکثریت پھر بھی نہ مل سکی ، تب ہوائی جہازوں کے ذریعے ارکان اسمبلی اکٹھے کئے گئے، جو پارٹی اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کی اہل ثابت نہ ہوئی ، اسے ملک کا اقتدار سنبھالنا زیب ہی نہیں دیتا تھا ۔ اصولی طور پر اس پارٹی کا فرض تھا کہ وہ خندہ پیشانی سے اپنی شکست قبول کرتی، اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتی ، اور پانچ سال تک سیاسی تجربے سے گذرتی۔اس پارٹی کو اقتدار تو مل گیا ، لیکن حکومت چلانے کےلئے انہیں بیرون ملک سے لوگ درآمد کرنے پڑے ۔ یہ لوگ صرف دیہاڑی لگانے آئے تھے ۔ جیسے جیسے کوئی شخص لوٹ مار اور کرپشن کے ذریعے پیٹ بھر لیتا ، وہ واپس پردیس کی راہ لیتا ۔
تحریک انصاف کے کتنے ہی وزیر باتدبیر آج منظر سے غائب ہیں اور وہ اپنے اپنے ملکوں میں بیٹھے مزے اڑا رہے ہیں ۔ تحریک انصاف نے حکومت چلانے کیلئے ہمیشہ فاشزم کا راستہ اختیار کیا ۔ ایک دن کوئی وزیر اعلان کرتا ،کہ کل فلاں شخص جیل میں ہوگا تو اس کی یہ پیش گوئی حرف بحرف درست ثابت ہوتی۔
درحقیقت اس دور میں حکومت نے نیب کو بدترین ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا، عدلیہ اس کیلئے مرغ ِ دست آموز تھی‘ اس کےلئے کسی بھی مخالف سیاستدان کو جتنی مرضی سزا دلوائی جاتی ۔ مسلم لیگ ن کے قائدین کو بلادریغ ہتھکڑیاں لگائی گئیں ، میاں نوازشریف کی بیٹی مریم نواز کو باپ کے سامنے گرفتار کیا گیا ۔ زرداری کی بہن فریال تالپور کو شدید بخار کی حالت میں ہسپتال سے اٹھایا گیا۔ پانامہ لیکس کیس میں ہزاروں لوگوں پر الزامات لگائے گئے تھے، لیکن دنیا بھر میں پانامہ لیکس کی بنیاد پر صرف ایک مقدمہ میاں نواز شریف کے خلاف چلایا گیا ۔ مزید طرفہ تما شا یہ ہے کہ نواز شریف کو نااہل کرنے کیلئے اقامہ کی آڑ لی گئی ،اور یہ ساری حرکتیں وہی حکومت کرسکتی ہے ، جسے نہ سیاست آتی ہو ، نہ حکومت کرنے کا کوئی تجربہ ہو۔ چنانچہ ایسی پارٹی سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن میں وہ گل نہ کھلاتی ، جس کا تماشا سیاسی تاریخ میں شاید پہلی بار دیکھنے میں آیا ۔
انٹراپارٹی الیکشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ ڈنڈے کے زور پر الیکشن جیتنے اور حکومت چلانے کے شوق میں مبتلا ہیں ۔ سیاست، فراست اور جمہوریت کبھی ان کے قریب سے بھی گذرنے نہیں پائی ۔ اس پارٹی نے ڈنڈے کا مظاہرہ 9مئی کو بھی کیا، اور ڈنکے کی چوٹ پر کیا ۔ سوشل میڈیا پر جعلی اکاﺅنٹس کے ذریعے وہ ملکی اداروں اور قومی سیاستدانوں کو بدنام کرنے میں دن رات مصروف رہتے ہیں ۔ ایسے جعلی اکاﺅنٹس کئی بار طشت از بام ہوچکے ہیں ۔ لیکن شرم ان کو مگر نہیں آتی۔
انصاف کا تقاضا ہے کہ میں ملک کی باقی سیاسی پارٹیوں کی بھی بات کروں ، جمہوریت کا راگ الاپنا ، آئین کی دہائی دینا، سب سیاسی پارٹیاں اپنا فرضِ اولین سمجھتی ہیں ، لیکن کیا مجال کہ انہوں نے پاکستان کی پوری تاریخ میں کبھی ایک مرتبہ ہی پارٹی الیکشن کروائے ہوں ، پارٹیوں میں موروثی قیادت کا رواج اور راج ہے ۔ باپ کے بعد بیٹایا بیٹی ، بیٹے کے بعد پوتا یا پوتی ، کم و بیش تمام سیاسی پارٹیاں فردِ واحد نے بنائیں ۔ اور ہمیشہ وہی یا ان کے عزیز و اقارب پارٹی کے مدار المہام بنے رہے ۔ صرف جماعت اسلامی داد کی مستحق ہے کہ جس کے اندر مقررہ مدت کے بعد باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں اور انکے ذریعے پارٹی قیادت کا چناﺅ عمل میں آتا ہے ۔ ورنہ باقی سیاسی پارٹیوں میں قیادت ورثے کے طور پر تقسیم ہوتی ہے ۔ اس صورتحال میں پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل سخت مخدوش ہے ۔ کاش ! ہم سب ہوش کے ناخن لیں ۔ تحریک انصاف کو خاص طور پر ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ،وہ جمہوریت کا نزدیک بھی پھٹکنے نہیں دیتی ۔ لیکن اس کی خواہش یہ ہے کہ اسے لیول پلیئنگ فیلڈ ملے ، اس کے مقابلے میں کوئی پارٹی اپنا امیدوار کھڑا نہ کرے .... اور گلیاں ہوجان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے ۔