حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہم نے اپنے ذاتی مفادات ضدوں اور اناو¿ں کو مقدم رکھتے ہوئے ملکی مفادات قربان کر دیے جس کاخمیازہ ملک وقوم کو بھگتنا پڑا اور آج تک بھگت رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال سے ملک کے دوٹکڑے کر چکے۔ اتنا بڑا نقصان کرنے کے باوجود ہم باز نہیں آرہے۔ نت نئے طریقوں سے بگاڑ پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی کو احساس تک نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ان لڑائیوں کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ذرا سوچیں کہ ملک کو کس قدر ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہر کوئی اپنے فائدے اور ضد کی خاطر اپنا شملہ اونچا کرنے کے چکروں میں ہے، ماضی کی ضدوں کا خمیازہ ہم بھگت چکے اس لیے اس پر بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ان خیالوں سے بھی خوف آتا ہے۔ ہم اس کے بعد کی بات کر لیتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن اگر مشرقی پاکستان میں مقبول ترین لیڈر تھا تو ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان کا مقبول لیڈر تھا لیکن یہ مقبولیت نہ بیرونی طاقتوں کو ہضم ہو رہی تھی نہ اندرونی طاقتوں کو وارا کھاتی تھی۔ ہم نے بھٹو کو جمہوری پراسس سے منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی غیر فطری انجام سے دوچار کر دیا اور آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
عدالت سے اس کاقتل کروا کر عدالتی نظام پر ایسا سوالیہ نشان لگوا دیا کہ لوگ آج تک عدالتی نظام پر مکمل اعتماد نہیں کر پا رہے۔ بھٹو کی روح آج بھی عدالتوں میں بھٹک رہی ہے اور آج ایک بار پھر عدالتوں کو بھٹو کیس میں تاریخ درست کرنے کی مشکل ترین صورتحال کا سامنا ہے۔
دوسری جانب نصف صدی گزر جانے کے باوجود تاحال بھٹو زندہ ہے۔ اس کی بیٹی اس کے دونوں بیٹے اور اہلیہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ کئی دہائیوں کی کوششوں کے بعد جیالوں کو قابو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن وہ بھی جزوی طور پر۔ درمیان میں مصنوعی مقبولیت بھی گلے پڑی رہی اور اس کو بھی راہ راست پر لانے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑے۔ لیکن آج ہم پھر ایک اور لیڈر کو جیل میں بند کر کے نت نئے حربوں سے اسے زیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر بات بن نہیں پا رہی۔ صورتحال ڈیڈ لاک کی سی بن چکی ہے۔
پاکستان کی معیشت، معاشرت، سیاست جمہوریت، عدالتی ادارے ریاست اور عوام سب بری طرح پھنس چکے ہیں اور ان بحرانوں سے نکلنے کے لیے ہم مصنوعی اقدامات کرکے حالات میں بہتری لانے کی کوششوں میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ لیکن کیا ہی بہتر ہو کہ ہم حقیقتوں کو تسلیم کرکے دو دو قدم پیچھے ہٹ جائیں اور مل جل کر پاکستان بچا لیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم ایک وسیع البنیاد بقائے پاکستان قومی چارٹر تشکیل دیں جس میں تمام سٹیک ہولڈر اپنی اپنی اناوں کو بالا طاق رکھتے ہوئے پرانے زخم اور غلطیاں بھلا کر ازسرنو زندگی گزارنے اور برداشت کے حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھنے کا عزم کریں۔ کیا وسیع تر قومی مفاد میں ملک میں اتفاق رائے کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ کیا قومی یکجہتی کے لیے تمام سیاستدانوں کو ایک ایجنڈے پر اکٹھا نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے خیال میں آئین تو مجروح ہو چکا لیکن اگر کچھ عرصے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ مل کر چارٹرڈ آف پاکستان کر لیں اور پاکستان کو مضبوط بنیادیں فراہم کرکے کچھ عرصہ بعد صاف شفاف انتخابات کروا کر معاملات منتخب حکومت کے حوالے کر دیے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن جو صورتحال اب بن چکی ہے اس میں جس قسم کے انتخابات متوقع ہیں وہ مسائل کا حل نہیں بلکہ وہ مزید انتشار اور خرابی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس سے نئے مسائل جنم لیں گے۔ پاکستان پہلے سے پیدا شدہ تنازعات سے ہی باہر نہیں نکل پا رہا، ایسے میں نئے تنازعات ملک وقوم کو گھمبیر مسائل کا شکار کر سکتے ہیں۔ ویسے تو یہ کام لیڈر شپ کا ہوتا ہے لیکن ہمارے لیڈروں میں اتنا ظرف نہیں۔ وہ تو اپنے اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں لیکن ادارے ریاست کے ضامن ہوتے ہیں اور ریاست کے محافظ بھی ہیں۔ قوم کی نگاہیں ہمیشہ اداروں کی طرف ہوتی ہیں کہ وہ مشکل وقت میں اپنا کردار ادا کر کے بچا لیں گے۔ اداروں کو دریا دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے سب کو اکٹھا کریں اور کہیں کہ آو مل کر پاکستان بچائیں۔ اگر ہم سارے متفق ہو کر ریاست پاکستان بچانے کے لیے کچھ معاملات پر درگزر کریں گے تو ہمارے راستے میں کوئی سپیڈبریکر نہیں آسکتا۔
٭....٭....٭