اَرضِ فلسطین پر دو ریاستیں کیوں؟

تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز نہ ہوا تھا کہ عالمی استعماری قوتوں نے فلسطین کی سرزمن پر اسرائیل قائم کرنے کا تہہ کر لیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے‘ جو مسلمانوں کی آزادی کے علمبردار تھے، فلسطین فنڈ قائم کیا۔ 3 دسمبر 1937ءکو پورے ہندوستان میں ”یوم فلسطین“ منایا گیا کیونکہ برصغیر کے مسلمان ارضِ فلسطین اور بیت القدس سے گہرا لگاو¿ اور عقیدت رکھتے تھے۔ برٹش انڈیا میں جب دو قومی نظریہ نے جڑ پکڑ لی تو23 مارچ 1940 ءکو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں ”قراردادِ پاکستان“کے ساتھ ساتھ ”قرار دادِ فلسطین“ منظور کی گئی۔ پاکستان 14 اگست 1947ءکو معرضِ وجود میں آگیا۔ 1948 ءمیں سامراجی قوتوں کی سازش کے تحت اسرائیل قائم کرنے کا اعلان ہوا تو پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے اَرضِ فلسطین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کی شدید مخالفت کی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایاکہ ” اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، یہ ا±مت کے قلب میں گھسایا گیا خنجر ہے۔ پاکستان ا±سے کبھی تسلم نہیں کرے گا“۔ یوں قائد اعظم کے یہ الفاظ پاکستان کی ”مستقل فلسطین پالیسی“بن گئے جسے 75 سالوں میں کسی فوجی یا سول حکومت نے تبدیل نہیں کیا اس لئے اگرآج کوئی سرزمینِ فلسطین پردو ریاستوں (فلسطین اور اسرائیل) کی بات کرتا ہے تو وہ بانی قائداعظم کے وژن سے انحراف کرتاہے اور انصاف کے مروجہ ا±صول کو بھی نظرانداز کرتا ہے۔ مصور پاکستان علامہ اقبال قیام پاکستان سے پہلے انتقال کر گئے مگر ا±نہیں نظر آرہا تھا کہ سرزمین فلسطین پر ایک ناجائز ریاست قائم کرنے کے لئے سازش ہو رہی ہے۔ ا±نہوں نے ایک خط میں قائد اعظم کو متوجہ کیاکہ ”فلسطین نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے بلکہ عالم اسلام کیلئے بہت عظیم ہے۔ اس پر ب±ری نیت سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ فلسطینی عوام کے حقوق غصب کرنے پر جہاں برطانیہ اور اقوام عالم قصور وار ہیں وہیں عرب بادشاہ بھی شریکِ گناہ ہیں۔ عربوں کو چاہیے کہ انکے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کو نکہ ان کی حیثیت ایسی نہیں ہے کہ وہ ایمان وضمیر کے مطابق فلسطینیوں کے متعلق کوئی فیصلہ کرسکیں۔ 7 اکتوبر 2023ءکے طوفان الاقصیٰ کو روکنے کیلئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یا ہونے 8 اکتوبر 2023ءکوغزہ پر مکمل جنگ مسلط کرنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد غزہ اور فلسطین کے دوسرے علاقوں پر اسرائیلی جنگی جہازوں نے آگ اور بار±ود کی بارش کرکے معصوم بچوں اور خواتین کا وہ قتل عام کیا جس کی تاریخِ انسانی میں مثال نہیں ملتی۔ غزہ کی کل آبادی 30 لاکھ ہے جس میںسے 24 لاکھ آبادی (80 فیصد) بے سرو سامانی میں دوسرے علاقوں کو ہجرت کر گئی۔ اب تک ساڑے18 ہزار سے زائد فلسطین شہید اور 50 ہزارسے زائدزخمیہ و چکے ہیں۔ درجنوں صحافیوں، موّرخین، ادیبوں، شاعروں، ماہرینِ تعلیم اور مصنفین کو شہید کرنے کے لئے اسرائیل نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ شہداء میں بچوں اورخواتین کی تعداد سب سے زیادہ (یعنی 12 ہزارسے زیادہ) ہے۔ ہسپتالوں پر براہِ راست بمباری کی جارہی ہے۔ انکبیوٹرز (incubators) میں آکسیجن ختم ہونے پر کئی نومولود بچے شہید ہوگئے۔ تقریباً تمام ہسپتال، سکولز ، مساجد، مدارس، پناہ گزیں کیمپ اور پبلک مقامات تباہ کر دئیے گئے۔ بم برسا برسا کر 80 فیصد مکانات کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اس سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ 50 ہزار سے زائد حاملہ خواتین صحت کی سہولتوں سے محروم ہوگئیں۔ بموں کی شدت سے کئی خواتین کے حمل ضائع ہو گئے۔ ہسپتالوں کے تباہ ہوجانے کے بعد15 فیصد حاملہ خواتین بے ہوشی (انیستھیزیا) کے بغیر بڑے آپریشن کے ذریعے بچے پیداکرنے پر مجبور ہیں۔ 7لاکھ خواتین ہائی جین پراڈکٹس سے محروم ہیں۔ اس ساری صورتحال پر دنیا بھر کے عوام اور انسانی و حقوق نسواں کی تنظیمیںسراپا احتجاج ہیں۔
اسرائیل نے حماس کوختم کرنے کا عزم کیا ہوا ہے جبکہ حماس ایک سیاسی جماعت ہے، جس کو فلسطین کے عوام نے انتخابات میں ووٹوں سے منتخب کیا ہے اور اب یہ میدانِ کارزار میں بھی اسرائیل کا زبردست مقابلہ کر رہی ہے۔ حالیہ غزہ جنگ میں اسرائیل کو 50 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ اسرائیل کی وزارت دفاع نے اعتراف کیا ہے کہ ا±سکے 420 فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ 1948ءسے لےکر آج تک اسرائیل کو اتنا جانی اور مالی نقصان نہیں ا±ٹھانا پڑا جتنا اس دفعہ ا±ٹھانا پڑا ہے۔ اس کا عسکری اور نفسیاتی رعب ختم ہو چکا ہے۔ امریکہ کی واشنگٹن یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ حالیہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوجی اور شہری خوف اوراعصابی تناو¿ کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ نہ صرف جنگ سے بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ وزیراعظم نیتن یاہو کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔ اس جنگ کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ صرف چھ دن جاری رہی جس میں تمام عرب ممالک اسرئیل سے ہار گئے مگر طوفان الاقصیٰ کے بعد حماس گذشتہ 66 دنوں سے اسرائیل کا دیوانہ وار مقابلہ کررہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فلسطینی اپنی بقا کی جنگ میں سب کچھ کر گزریں گے۔ حماس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023ءسے پہلے کے ذلت آمیز دور میں واپس جانا نہیں چاہتے۔ اقوم متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ غزہ جنگ کا دائرہ لبنان، شام، عراق اور یمن تک پہنچ گیا ہے جبکہ دفاعی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اگر اسرائیل نے جارحیت بند نہ کی تو یہ جنگ ایشیا، یورپ اور امریکہ تک پھیل جائے گی۔
امریکہ، برطانیہ اور مغربی ممالک نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی ہے۔ امریکی صدر بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے اسرائیل جا کر وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور ہر قسم کی سیاسی اور فوجی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ”میں بحیثیتِ یہودی اسرائیل آیا ہوں تاکہ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر سکوں“۔ تازہ ترین اطلاعات کیمطابق برطانیہ کے جہاز غزہ کی جاسوسی میں اسرائیل کو مدد دے رہے ہیں جبکہ غزہ پر امریکی اسلحہ وبارود کے استعمال کے شواہد ملے ہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ کے بڑے بڑے کاروباری ادارے فلسطینیوں کی نسل کشی کےلئے اسرائیل کو اربوں ڈالر امداد اور خوراک مہیا کررہے ہیں۔ پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں اسرائیلی جارحیت پر زبر دست احتجاج کیا گیا ہے۔ پاکستان میں سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے جماعت اسلامی نے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں کئے جبکہ امریکہ اور یورپ کے بڑے شہروں میں لاکھوں افراد نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی اور تمام مذاہب کے پیروکاروں نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اسرائیلی جارحیت پر دنیا بھر کے مظاہروں کے نتیجے میں اسلامی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)اور عرب لیگ کا بے نیتجہ اجلاس توہو گیا مگر ا±س نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مایوس کردیا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس میں ایران اور ترکیہ کے صدورنے دھواں دار تقریریں کیں مگر کانفرنس نے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات سے گریز کیا۔ ترکیہ اگر اسرائیل سے تعلقات منقطع کرتا۔ لیبیا، قطر، آذربائیجان، شام اور عراق کی طرح غزہ کی حفاظت کیلئے اپنی فوجیں غزہ میں اتارتا تو خلافتِ عثمانیہ کی گمشدہ میراث پاتا۔ آج بھی اگر سعودی عرب، ایران، ترکی، شام ، مصر اور ا±ردن کھل کر فلسطینیوں کا ساتھ دیں تو اسرائیل جارحیت بند کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل نہ صرف عالمی قوانین کی خلاف روزی کررہاہے بلکہ جنگی جرائم کا مسلسل ارتکاب کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی مگر سیکورٹی کونسل میں امریکہ نے قرارداد کو ویٹو کردیا اور موقف اختیار کیا کہ جنگ بندی کا فائدہ صرف حماس کو پہنچے گا۔

ای پیپر دی نیشن