فیصل سلیم
پدرسری کے زیر اثر پنپنے والی معاشرت میں عورت کو ہمیشہ آزادانہ اظہار خیال پر پابندی کا سامنا رہاہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اس کے خطرناک نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔
ایسی ہی ایک مثال ضلع خانیوال کے ایک گاو¿ں موہری پور کی ہے۔ جہاں کی خواتین پسماندہ سوچ کی پاسداری کرتے ہوئے قیام پاکستان کے بعد سے کسی بھی انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالتیں۔موہری پور خانیوال کی تحصیل کبیروالا کے مرکزی شہر کبیروالا سے 15 کلومیٹر پر واقع ہے جہاں 2015 تک کے چناو¿ میںکسی بھی خاتون نے ووٹ نہیں ڈالا۔ لیکن پہلی بار ایک خاتون نے 2015 کے بلدیاتی انتخابات میںووٹ ڈالا۔
موہری پور ضلع خانیوال کے قومی اسمبلی حلقہ این اے 146 (سابقہ نمبر 150)، صوبائی حلقہ پی پی 203 اور یونین کونسل نمبر 25 ماڑی سہو کا ایک حصہ ہے۔2017 کی مردم شماری کے مطابق 9014 افراد کے مسکن اس قصبے میں 4835 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں سے 1883 خواتین ووٹرز ہیں۔ گاو¿ں میں مختلف ذاتوں کے لوگ آباد ہیں جن میں اولکھ کمبوہ، ساہو، سرگانہ، ساہی، کھوکھر اور سادات شامل ہیں۔2015 کے مقامی انتخابات میں موہری پور کی اس رہائشی خاتون کا نام فوزیہ قیصر ہے ۔ جس نے لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ سے ایک پٹیشن کے ذریعے اپنے علاوہ دیگر خواتین کے لیے حفاظتی انتظامات کی اپیل کی اور پھر الیکشن کے دن پہلی بار گاو¿ں میں ایک خاتون نے اپنا ووٹ ڈالا۔ اس ناپسندیدہ روایت کے باوجودگزشتہ قومی انتخابات 2018 میں ملکی سطح پر ووٹنگ ٹرن آو¿ٹ 99۔51 فیصد رہا جبکہ پنجاب میں 8۔56 فیصد رہا۔ جبکہ این اے 150 میں خواتین کا ووٹنگ ٹرن آو¿ٹ 56۔55 فیصد، مردوں کا 61 فیصدتھا۔
مذکورہ روایت سے مقامی مردوں کے طرز عمل کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یو-سی 25 کے سابق چیئرمین غلام مصطفیٰ اولکھ ایڈووکیٹ 2002 میں بلدیاتی الیکشن میں 150 ووٹوں سے ہار کو ترجیح دی لیکن علاقائی روایت کو برقرار رکھا۔ فوزیہ قیصر کو ووٹ کاسٹ کرنے کے حوالے سے اپنے شوہر قیصر عباس اور مقامی میڈیا کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ موہری پور کے لمبردار افضل اولکھ صرف یہ جانتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے ان کے تمام آباو¿ اجداد نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کی مخالفت کی ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکشن 9، باب 2، جمہوری عمل میں خواتین کی شرکت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کسی بھی حلقے میں خواتین کے کم از کم 10 فیصد ووٹ ڈالے جائیں اور کل ووٹوں کا 40 فیصد ہونا ضروری ہے۔ کسی بھی ناقابل قبول صورتحال میں الیکشن کمیشن خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے عنصر کی تحقیقات کرے گا اور پولنگ سٹیشنوں یا پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ ہو سکتی ہے۔یہاں قابل ذکر بات ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی بنیاد پر عام انتخابات میں ای سی پی نے مذکورہ پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کو قبول کیا اور خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے کا نوٹس نہیں لیا۔الیکشن کمیشن کے مطابق انہیں آج تک اس مسئلے کے حوالے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے ، یونین کونسل کی سطح پر خواتین کے کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی شرح بھی دس فیصد سے زیادہ رہی ہے۔
الیکشن کمیشن پاکستان کے مطابق گزشتہ قومی انتخابات 2018 میں صرف ایک صوبائی حلقے پی کے 23 شانگلہ میں خواتین کا ووٹنگ ٹرن آو¿ٹ دس فیصد سے کم رہا، جبکہ فافن کی رپورٹ کیمطابق این اے 10، شانگلہ، این اے 48 جنوبی وزیرستان، اور پی کے 23 شانگلہ میں خواتین کا ووٹنگ ٹرن آو¿ٹ دس فیصد سے کم رہا تھا۔ جبکہ 2013 میں صوبہ پنجاب میں ہی چھ حلقے ایسے تھے جن میں میں خواتین کا ووٹنگ ٹرن آو¿ٹ ٪10 سے کم تھا۔
سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور الیکشن ایکٹ کے ماہر راو¿ اکرم خرم کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن مذکورہ شق کی وضاحت کرتا ہے کہ اگر کوئی امیدوار ہارتا ہے تو اس شق کی بنیاد پر انتخابات کے نتائج کو چیلنج کر سکتا ہے، کہ یہ نتائج " مادی طور پر متاثر ہوئے۔" اس صورت حال میں، ہارنے والے اور جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں کے درمیان فرق کا موازنہ خواتین کے کاسٹ نہ ہونے والے ووٹوں کی تعداد سے کیا جائے گا جو ڈالے جانے کی صورت میں ہارنے والے امیدوار کو جیتنے کی امید ہوتی ہے
فریدہ شہید، عالمی شہرت یافتہ ماہر عمرانیات اور شرکت گاہ کی بانی رکن، کا خیال ہے کہ خواتین کے دس فیصد ووٹ ڈالنے کی شرط کا اطلاق پورے حلقے کے بجائے ہر پولنگ اسٹیشن پر ہونا چاہئے۔ جوئیہ، وٹو اور کھوکھر برادری کے مسکن گاو¿ں کے رہائشی 61 سالہ شاکر خان کا کہنا ہے کہ یہاں کے مرد مر گئے ہیں کیا جو ووٹ ڈالنے کے لئے انکی خواتین کو غیر مردوں کے انتخاب میں حصہ لینا پڑے گا۔2002 میں ایک سرکاری سکول ٹیچر کی مہم چلائی۔ جبکہ 2013 کے عام انتخابات سے قبل عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، فرزانہ باری، اور سرور باری کے علاوہ انسانی حقوق کی مشہور کارکنان راشد رحمان (مرحوم) نے موہری پور کا دورہ کیا۔ انہوں نے مقامی سربراہان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دیں لیکن 30 مئی کو خواتین کا کوئی بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔مقامی صحافی محمد علی ایاز کا خیال ہے کہ یہاں خواتین کا ووٹ نہیں ڈالا جائے گا کیونکہ اس علاقے کی خواتین کو یہی سکھایا گیا ہے۔55 سالہ بیوہ سمیعہ بی بی کا کہنا ہے کہ موہری پور میں کوئی خاتون ووٹ نہیں ڈالتی۔لڑکیاں جن کی شادی گاو¿ں سے باہر ہوتی ہے وہ اپنے نئے گھروں میں ووٹ ڈال سکتی ہیں۔مسجد نوری کے امام اللہ دتہ قادری اس معاملے کو ایک مقامی روایت سمجھتے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔سماجی تنظیم انجمن احباب الاسلام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سلامت علی سندھو نے رواں سال موہری پور میں اس مسئلے کے حوالے سے ایڈووکیسی مہم چلائی۔ مقامی سربراہان کا مطالبہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر سمیت وہ سب عہدیداران جو سالانہ ترقیاتی منصوبہ جات کمیٹی میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں یقین دہانی کروائیں کہ کام ہوں گے تو موہری پور کے مرد و خواتین ووٹ دے دیں۔
اسی قومی حلقے سے مسلسل تین بار کامیاب ہونے والے رضا حیات ہراج کا کہنا ہے کہ ہماری علاقائی روایت ہے کہ مرد صرف مردوں سے بات کرتے ہیں، انتخابی مہم میں خواتین کا کردار خاصا محدود ہے۔ مقامی رہائشیوں پر منحصر ہے کہ وہ اب خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت کب دیں گے۔ملکی جمہوری نظام میں ووٹ ڈالنے میں رکاوٹ قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی اعلامیوں اور کنونشنز کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ 1948 کا آرٹیکل 21 شامل ہے، جو تمام انسانوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔