نیلما درانی کو پچیس سال سے جانتی ہوں۔ اکثر میری ملاقات بیاض کے فنکشن پر ہوتی دور سے بیٹھی نیلما مسکراتی آنکھوں سے دیکھتی تو مجھے وہ بہت اچھی لگتی۔ ایک روز میں نے میں نے بشریٰ رحمان سے، جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ پوچھا کہ یہ کون ہے۔ بڑی محبت والی لڑکی ہے تو بشریٰ نے بتایا کہ یہ بھی لکھاری ہے اور پولیس آفیسر بھی۔ میں نے دل میں سوچا پولیس آفیسر تو بڑے سخت مزاج ہوتے ہیں خیر میری اس سے دوستی ہوگئی۔
اس کی کتاب آخری بس کا انتظار بڑی دلچسپ افسانوں کی کتاب ہے۔ اس کے تمام افسانے بڑے لاجواب ہیں۔ نیلما درانی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے بلکہ برسوں سے لکھ رہی ہے۔ اس کی اپنی پہچان ہے۔ اس کو اپنے مقام کی وجہ سے نہایت ہی عزت ملی ہے۔ نیلما کی نسوانیت اور حسن کردار افسانوں میں نمایا ں ہے۔ یہ حقوق نسواں کی علم برداروں میں ہیں۔ یہی فرق ہے کہ نیلما میں ایک سلیقہ،دھیمہ پن،قرینہ اور قائل کرنے کی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ لفظوں کے چناؤ میں اتنی خوبصورتی ہے کہ پڑھ کر دل خوش ہو جاتا ہے۔ غریبوں کی مظلومیت کا ذکر اپنے افسانوں میں کرتی ہے۔
اپنے افسانے ’ساڑھی کی فرمائش‘میں لکھتی ہیں۔ بڑی بیٹی روزینہ دسویں جماعت میں تھی۔ اس کے سکول میں الوداعی پارٹی تھی۔ اس نے سلک کی ساڑھی کی فرمائش غریب والد سے کی۔ باپ کی آمدنی سے گھر کا راشن بھی پورا نہیں ہوتا تھا۔ باپ بہت پریشان تھا۔ بچی کو بری طرح ڈانٹ دیا اور گھر سے باہر نکل کر ایک نجی بینک میں اپنے خون کی بوتل بیچی اور لال رنگ کی ساڑھی لے کر گھر پہنچا۔ باپ نے جب بیٹی کو بلایا تو وہ ابدی نیند سو چکی تھی۔ اس نے باپ کی جیب سے نکال کر نیند کی گولیاں کھا لیں۔ نیلما نے اتنے دردناک انداز سے لکھا ہے کہ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ حالات حاضرہ کے حوالے سے بہترین افسانہ ہے۔
’سدانہ ماپے، حسن جوانی‘۔ اس افسانے میں ایک لڑکی کی جوانی کا حسن اتنے خوبصورت انداز میں پیش کیا کہ ہیلوئین کا تہوار بڑے شوق سے مناتی تھی اور طرح طرح کے روپ بدلتی تھی جیسا بھی روپ دھار لیتی تھی پھر بھی خوبصورت لگتی تھی مگر جوانی کی منزلیں طے کرتے کرتے وہ بوڑھی ہو گئی۔ ہیلوئین کا تہوار منانے کے لیے اس کا اب بھی دل کرتا تھا جب بوڑھی ہو گئی تو بچوں، پوتے پوتیوں اور بیٹے سے فرمائش کی کہ جب ہیلوئین کے تہوار پر جاؤ گے مجھے بھی لے جانا، لہٰذا وہ اس کو لے گئے۔ و ہ گاڑی میں بیٹھی رہی اور اس دوران بچوں کی گاڑی اس کی کار کے پاس سے گزری تو ایک بچی نے کہا، ماما اس گاڑی میں چڑیل ہے تو رانی نے چڑیل کا حلیہ نہیں بنایا تھا۔ رانی نے کار کے سائیڈ آئینہ میں خود کو دیکھا تو شیشے میں سفید بالوں ڈھلکی جلد اور ویران آنکھوں والی بڑھیا کا چہرہ تھا۔ وہ واقعی چڑیل لگ رہی تھی۔ اس کا رنگ روپ حسن جوانی وقت کے دھارے میں کہیں کھو چکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور میاں محمد بخش کا شعر یاد آگیا۔
سدا نہ ماپے، حسن جوانی
سدا نہ صحبت یاراں
نیلما کی تحریریں حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں۔ انداز تحریر ان کی شخصیت کی طرح دلکش،سلیس اور دل میں اتر جانے والا ہے۔ مشکل بات کو آسان بات بنا کر پیش کرتی ہے۔ اس کی تحریروں میں سماجی ناہمواریوں اخلاقی قدروں کی ٹوٹ پھوٹ۔ ادیب نقیب ہوتا ہے۔ وہ معاشرے کی اصلاح کرتا رہتا ہے۔ نیلما کی تحریریں دلوں کو دلوں سے اور گھروں کو گھروں سے جوڑنے والی ہوتی ہیں۔ وہ کبھی واعظہ اور ملاس بننے کی کوشش نہیں کرتی۔ ضمیر کو جگانے والی باتیں بین السطور کرجاتی ہیں۔ یہی نیلما کی تحریر کا کمال ہے۔
’آخری بس کا انتظار‘ ۔ اس افسانے میں نیلما نے بہت عمدہ تصویر کشی کی ہے۔ برف باری کا منظر یوں بیان کیا ہے۔ آسمان سے سفید روئی کی گالوں جیسی برف برس رہی تھی۔ سڑک کے دونوں جانب برف کی چھ چھ فٹ اونچی پہاڑیاں کھڑی تھیں۔ سویڈن میں دسمبر ایسا بھی ہوتا ہے۔ رگوں میں خون جمانے والی سردی۔ شیریں اوراریج بس سٹاپ پر بیٹھے تھے۔ رات کے پونے گیارہ تھے۔ ان کے جسم سردی سے کانپ رہے تھے۔ انھیں آخری بس کا انتظار تھا جس نے پورے گیارہ بجے آنا تھا۔ دونوں سردی سے ٹھٹھر رہے تھے۔ برفباری میں جب خون رگوں میں جم رہا ہو۔ یہ انتظار کی گھڑیاں بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ اور ایک انجانا خوف تھا اگر گیارہ بجے بس نہ آئی تو صبح لوگوں کو ان کی اکڑی ہوئی لاشیں ملیں گی۔بڑی ہی خوبصورت منظر کشی کی ہے۔ یہ منظرمجھ پر طاری ہو گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے برف کے گولے مجھ پر گر رہے ہیں۔ چند لمحوں کے لیے میں سردی سے ٹھٹھر گئی۔ پھر اپنے آپ کو سنبھالا۔ ارے، یہ تو اریج اور شیریں بس کے انتظار میں ہیں۔ میں یوں ہی سردی سے ٹھٹھر رہی ہوں۔ یہ اچھے افسانے کی پہچان ہے چند لمحوں کے لیے قاری اسی فضا میں گم ہو جاتا ہے۔نیلما ہر فن مولا ہیں۔ بہترین نثر نگار اور شاعرہ بھی ہیں۔ ایک انسان بیک وقت نثر نگار اور شاعر بھی ہو تو یہ بڑے کمال کی بات ہوتی ہے۔ نیلما بنیادی طور پر اچھی لکھاری ہیں۔ اس کا بہت گہرا مشاہدہ ہے۔ یہی بنیادی لوازمات ہیں جو کسی بھی نثر نگار کی تشکیل کے لیے ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔ زمانے کی دھوپ نے اس کے فن کو نکھارا ہے۔ اس طرح ادب کی اعلیٰ قدروں اور مزاج کو برقرار رکھا ہے۔
’’آخری بس کا انتظار‘‘
Dec 12, 2024