ترقی پذیر اور غیرترقی یافتہ ممالک کی مجبوری

Dec 12, 2024

طاہر جمیل نورانی

وطن عزیز میں 26 نومبر 2024ء کو پیش آنے والے انتہائی افسوسناک قومی سانحہ کو باوجود کوشش کے بھلا نہیں پا رہا کہ معاملہ بے گناہ افراد کی شہادتوں اور گولیوں کا ہے مگر افسوس! دو ہفتے گزر جانے کے باوجود کولیشن حکومت اور پی ٹی آئی قیادت کے مابین جاری لفظی اور الزاماتی جنگ کا کوئی نتیجہ تاہنوز سامنے نہیں آسکا جس سے بیرون ملک مقیم محب وطن پاکستانیوں میں افواہوں اور سینہ گزٹ سے  تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معزز اعلیٰ عدلیہ سے میری خصوصی درخواست ہوگی کہ اوورسیز پاکستانیوں کے اعتماد کی بحالی کیلئے مذکورہ واقعہ کی مکمل اور حتمی رپورٹ سفارت خانوں کو بھجوائی جائے تاکہ بیرون ملک ہر پاکستانی کو اس افسوسناک سانحہ کے بارے میں آگاہی ہو سکے۔ 
آج کی دنیا میں ملکوں کا غریب اور مفلس ہونا کتنا بڑا جرم ہے‘ اس کا اندازہ آپ حال ہی میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی اس رپورٹ سے لگا سکتے ہیں جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ہر چھ میں سے پانچ غریب افراد افریقہ اور جنوبی ایشیاء میں ہیں جبکہ پاکستان میں 47 فیصد افراد خط غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غربت سے متاثرہ خاندانوں پر مرتب ہونے والے دیگر اثرات میں انکے بچوں کی وہ ابتدائی تعلیم بھی ہے جسے مالی مشکلات کی بناء پر جاری رکھنا ان کیلئے ممکن نہیں۔ اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں 2 کروڑ 62 لاکھ بچے اس وقت سکولوں سے باہر ہیں‘ شرح خواندگی کے اس اضافہ کا اندازہ صرف اسلام آباد سے لگایا جا سکتا ہے جہاں مبینہ طور پر 80 ہزار بچے مختلف حوالوں سے سکول نہیں جاتے۔ 
میری دانست میں غربت و افلاس اور عدم سیاسی استحکام سے دوچار ممالک پر مرتب کی جانے والی ایسی عالمی رپورٹوں کا ایک بنیادی مقصد متاثرہ ممالک کے عوام کو احساس کمتری سے دوچار کرنا بھی ہے کہ غیرترقی یافتہ اور کمزور ممالک کو اپنے معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی مسائل کے حل کیلئے دنیا کے طاقتور ممالک کا دروازہ کھٹکھٹانا انکی مجبوری بن چکی ہے کہ بڑی عالمی قوتیں موجودہ دنیا کو آج اسی لئے تھرڈ ورلڈ کے نام سے جاننے اور پہچاننے پر بضد ہیں حالانکہ غربت و افلاس اور معاشرتی کسمپرسی صرف افریقی یا بعض جنوبی ایشیائی ممالک میں ہی نہیں‘ متعدد یورپی ممالک میں بھی پائی جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں کے فلاحی و سماجی سسٹم نے عوام کے حقیقی رہن سہن میں پائی جانے والی کمزوریوں کو چھپا رکھا ہے جبکہ ہمارے ہاں نامکمل جمہوری معاشرے میں قومی کمزوریوں کو چھپایا نہیں بلکہ اچھالا جاتا ہے۔ 
برطانیہ میں بسنے والے اپنے برطانوی شہریوں کے مجموعی لائف سٹائل کی ہی ہم اگر بات کریں تو دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں 9 عشاریہ 3 ملین افراد یہاں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایسے افراد میں زیادہ تر تعداد 58 فیصد ان لوگوں کی ہے جن کے گھرانے کا کوئی نہ کوئی فرد ملازمت کر رہا ہے جبکہ اس تعداد میں 20 فیصد بچے بھی شامل ہیں جنہیں ’’فوڈبنک‘‘ کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔ بھوک و افلاس اور غربت کے ایسے مسائل غیرترقی یافتہ ممالک کیلئے بھی اب بلاشبہ چیلنج بنتے جا رہے ہیں مگر دوسری جانب مستقبل قریب میں شدت سے بڑھتے موسمیاتی مسائل کے بارے میں بھی اب عالمی بحران پیدا ہونے کی پیشین گوئی کی گئی ہے جس سے پاکستان پر مزید گہرے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ پوری دنیا میں دریا تیزی سے خشک ہونے کی بھی اطلاعات ہیں جس سے عالمی سطح پر پانی کی سپلائی میں شدید کمی واقع ہونے کے خدشات بھی موجود ہیں جس سے قحط اور بڑھتے سیلابوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ غیرترقی یافتہ اور عدم معاشی اور سیاسی استحکام سے دوچار ممالک کی گرتی اقتصادی حالت کا اگر مزید جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ ان ممالک میں قومی سطح پر جب تک جذبہ خودانحصاری‘ آئین و قانون کی بالادستی اور عوام کو دیئے انکے جمہوری حقوق کے احترام کو یقینی نہیں بنایا جاتا‘ نادار اور غریب ممالک کی شرح میں یونہی اضافہ ہوتا رہے گا۔ 
26 نومبر کے سانحہ پر دل چونکہ تاہنوز افسردہ ہے اس لئے قلم کے ساتھ الجزیرہ‘ موقر برطانوی اخبار گارڈین‘ جرمن ٹی وی اور وائس آف امریکہ سمیت امریکی کانگرس کے حوالہ سے اپنی عسکری قیادت کے بارے میں مبینہ طور پر گردش کرنے والی غیرمصدقہ خبروں کو زیادہ ہائی لائٹ نہ کرنے کا اس لئے معاہدہ کرلیا ہے کہ حقائق اور صداقت پر مبنی خبروں اور رپورٹس کو صفحہ قرطاس پر بکھیرنے سے قبل ’’پیمانہ حب الوطنی‘‘ کا ہونا ناگزیر ہے۔

مزیدخبریں