بابا جی اشفاق احمد کہا کرتے تھے ،،انسان کو کوئی چیز نہیں بدلتی جتنا اس کے دل پہ گزری ہوئی تکلیفیں اسے بدل دیتی ہیں اور تکلیفیں بھی وہ جو اس نے تنہا جھیلی ہوتی ہیں۔ بات یہ یقینی ہے انکار ممکن نہیں لیکن ہم تو ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مفادات کے غلام آ دم زادوں کو نہ صرف قدم قدم پر دیکھا بلکہ ہمارے دیکھتے دیکھتے ہی دنیا بدل گئی ،ہم اور ہمارے بڑے جن روایات اور تہذیب و ثقافت پر اتراتے نہیں تھکتے تھے انہیں ہمارے چھوٹوں نے اٹھا کر طاق میں سجا دیا۔ ہم کہتے تھے ،،نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے،، وہ کہتے ہیں دنیا برسوں پہلے چاند پر پہنچ چکی ہے، پاکستان اپنی ترقی پذیری اور غربت میں دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن چکا ہے پھر بھی آ پ کو آگے کی بجائے پیچھے دیکھنے کی عادت ہے۔ اب تعلیم اور شعبہ جات میں سرگرم ہونا پڑے گا ورنہ سب ،،لا حاصل،، ہو جائے گا۔ آ ج کی تعلیم وہ ہرگز نہیں، جو ،، رٹو طوتے،، پیدا کرتی تھی، دنیا بدل چکی ہے۔ ترقی اور خوشحالی کی ضرورت ہے تو دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا ورنہ ،،گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے،،۔ ہم نے تو یہ بھی پڑھا تھا کہ اکبر الہ آ بادی کہتے تھے،، ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں ، کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں،، آج کتاب ماضی کی طرح قابل قبول نہیں ہے پھر بھی بچوں کا رویہ وہی ہے۔ انہیں کون بتائے کہ 1947ء کی آزادی سے اب تک تمہارے بڑوں نے کتنی تکلیفیں برداشت کیں، آ گ وخون کے دریا عبور کیے اور اپنی خواہشوں و ضروریات کو ان کے مستقبل کے لیے اپنے ہاتھوں سے دفن کیا انہیں کون بتائے کہ کتنی تکالیف سانجھی تھیں اور کتنی تنہا سہنی پڑیں؟ انہیں کیسے یاد کرائیں کہ جس آزاد فضا میں تم سانس لے رہے ہو اس کے لیے کتنی جانوں کا نذرانہ دیا گیا، کون بتائے کہ تمہارے آ ج کے معیار تک پہنچنے کے لیے تین نسلوں نے شب و روز سر دھڑ کی بازی لگائی پھر آج تم سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوئے، پجارو ،لینڈ کروزر اورنج ٹرین ،میٹرو بس اور باقی سہولیات کا بوجھ ہر پاکستانی کے کندھے پر ہے۔ یہ غلط فہمی ہے کہ اشرافیہ، بیوروکریسی، صنعت کاروں اور جاگیرداروں کی کرامات سے ملک نے ترقی کی ہے۔ ہم زیرو سے ہیرو بنیں تو حکمرانوں اور منصوبہ بندوں کی منفی حکمت عملی سے آج دیس کا ہر بچہ پیدائشی مقروض ہے۔ اس میں جنرل محمد ایوب خان، صدر ضیاء الحق اور زبردستی کے صدر پرویز مشرف جہاں تینوں ڈکٹیٹرز کی کرم نوازی ہے وہاں ہمارے سیاست دانوں نے بھی جمہوریت کے جلوے میں بہت کچھ کیا ،جسے قوم معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ دنیا بدل گئی ہے لیکن ہم ابھی تک اپنے انداز بدلنے کو تیار نہیں، نئی نسل ہی نہیں پرانے لوگ بھی اپنی روایات اور تہذیب و ثقافت سے دور موبائل کی غلامی میں جا چکے ہیں، خواہشات، مفادات اپنی جگہ۔ سوشل میڈیا نے غیر مصدقہ معلومات سے ہی جینا حرام کر دیا، ایجادات نے انسان کو آسانیوں کے ساتھ ساتھ پریشانیاں بھی بانٹ دیں ،اب اس موبائل نے جہاں دنیا کو آ پ کے ہاتھ میں لا کھڑا کیا ہے، وہاں خط ،عید کارڈ ،گھڑی کو دور پھینک دیا ہے۔ کہتے ہیں، صدقہ بلائیں ٹالتا ہے اس لیے ہر چیز کا صدقہ ہوتا ہے لیکن موبائل کی بلاؤں سے آ پ محفوظ نہیں رہ سکتے اس کے لیے ذوق اور ظرف کا صدقہ دینا ہوگا جو کم ظرف لوگوں کو نظر انداز کر کے دیا جا سکتا ہے۔ لیکن دنیا بدل گئی ہے لہٰذا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ صدقہ نکالتے نکالتے آ پ کم ظرف قرار پا جائیں۔ ہم اور آ پ اپنی زندگی جینا چاہتے ہیں پھر بھی زندگی ایک انجان کتاب جیسی ہے کوئی نہیں جانتا کہ اگلے صفحے پر کیا لکھا ہے نسخہ کیمیا قر آ ن مجید کہتا ہے کہ مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہیں تمہارے دنیا کے یہ سہارے۔ پھر بھی آدم زادے نہ جانے کس گھمنڈ میں ہیں کہ پل کی خبر نہ ہوتے ہوئے بھی سو برس کے سامان کے لیے فکرمند ہیں ۔
ہمارے کرم فرما ممتاز آرٹسٹ ،بین الاقوامی شہرت کے مالک ذوالفقار زلفی نے مجھ ناچیز کے حوالے سے ایک تحسین انگیز میسج بھیجا کہ دنیا بدل گئی ہے اب آ پ جیسے،، برانڈ،، کہاں رہے نصیبوں میں۔ میں نے الحمدللہ کہتے ہوئے ادب و ثقافت و صحافت ، سیاست اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں جائزہ لینا شروع کر دیا کہ اب بھی،، برانڈ،، کہاں کہاں موجود ہیں۔ پہلا نام نامی مستنصر حسین تارڑ کا ذہن میں آیا۔ پھر نعیم طاہر لاکھ اختلافات کے باوجود منفرد ہیں۔ ایک ہیں پرویز راہی صاحب جنہوں نے بہت سی معلوماتی کتب لکھیں اور گھر بیٹھ کر زندگی کی سینچری مکمل کرنے میں چند برس کے فاصلے پر ہے۔ عطاء الحق قاسمی اور اصغر ندیم سید جیسے اپنی یار باش طبیعت کے ہاتھوں ابھی تک لامحدود دکھائی دیتے ہیں ورنہ ہم تو اپنے ہاتھوں سے فیض احمد فیض، حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، انتظار حسین ،قتیل شفائی، محسن نقوی، قوی خان، سلطان راہی، جمیل فخری، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان گنت ہیرے جواہرات سپرد خاک کر چکے ہیں۔ سچ مچ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بدل گئی ہے کیونکہ یہ چاند چہرے اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے، لمحہ موجود میں بہت سے چمکتے دمکتے،، برانڈ ،،موجود ہیں لیکن وہ کہاں؟ جو ہیں وہ ضعیف العمری کے باعث خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے لوگ دیدار عام کے لیے عجائب گھروں میں ہونے چاہئیں لیکن گھروں میں محصور ہیں اور اپنے چاہنے والوں کی پہنچ سے دور بلکہ بہت دور ہیں یقینا دنیا بدل گئی ہے لیکن اس بدلی دنیا میں بھی کشت وخون اسی طرح بہایا جا رہا ہے جیسے پہلے آدم زادے نے بھائی کا خون کیا تھا آج بھی بلا امتیاز رنگ و نسل بھائی بھائی کا خون بہا رہا ہے بلکہ امن و سلامتی کے ٹھیکے دار بھی دنیا بھر میں خون بہانے کی مختلف تراکیب ڈھونڈ لیتے ہیں، فلسطینی، کشمیری، یمنی، شامی،ایر انی عراقی، لبنانی،، کلمہ گو،، ہونے کے قصوروار ہیں لیکن کیا امن کی ٹھیکیداری میں غیر مسلم محفوظ ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں ،پھر میں کیسے تسلیم کر لوں کہ دنیا بدل گئی ہے اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دنیا ہماری اور آ پ کی زندگی لے کر بھی نہیں بدلے گی، اس لیے کہ مال و زر کی ہوس اور مفادات کا جال بہت مضبوط ہو چکا ہے،، ہم اور آپ ،،صرف اپنے انداز زندگی بدل کر ایک دوسرے سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کر کے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کر کے اپنی دنیا ہی نہیں، آ خرت بھی بدل سکتے ہیں، یہ دنیا بدل کر بھی نہیں بدلے گی، آپ کا کیا خیال ہے؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں اور چھوٹی چھوٹی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے اور ایک دوسرے سے معافی مانگ لی جائے کیونکہ چھوٹے پتھر سے ہی ٹھوکر کھا کر انسان گرتا ہے، پہاڑ اس کا کچھ نہیں بگاڑتے۔
اور دنیا بدل گئی؟
Dec 12, 2024