بارشیں قدرت کی حکمت عملی اور رحمت خدا وندی ہے ، لیکن بارشوں کی زیادتی اور اس کے منفی اثرات سے پہلو تہی نوع انسان کی ہلاکتوں کا سبب بن جاتی ہیں ، جو کہ انسانی ذمہ داریوں کو ادا نہ کرنے کا موجب ہیں ، پاکستان قدرتی آفات زلزلے، وبائی امراض اور سیلاب کی زد میں رہنے والا ملک ہے ، پاکستان خاص کر صوبہ پنجاب سیلابوں سے بار بار تباہی کا شکاررہا ہے ، دوسرے نمبر پر صوبہ سندھ اور تیسرے نمبر پر پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان سیلاب کی شدید تباہ کاریوں سے متاثر ہوا ہے۔
حکومت کی طرف سے سیلابی پانی سے آفت زدگان کے لئے جز وقتی اقدامات کئے جاتے ہیں لیکن سیلابی پانی کو روکنے کے لئے کبھی بھی مستقل بنیادوں پر انتظامات نہیں کئے گئے ، جب کہ ایک خطیر عالمی امداد سے بھی آفت زدہ علاقوں کو محفوظ نہیں بنایا گیا ، پاکستان میں محدود آبی گزر گاہیں سیلاب اوربارش کے پانی کے بہائو کو درست سمت اور مسلسل ترتیب میں رکھنے کی ناکافی کوششیں تباہی کا سبب ہیں ، پانی کے ذخیرہ کرنے کے مناسب اقدامات سے سیلاب کی تباہیوں میں کمی لائی جا سکتی ہے ، قیام پاکستان کے بعد سے ملک میں کثرت سے سیلاب ایک تباہ کن اور دائمی چیلنج کی صورت میں بر قرار ہے۔
زمین پر ہر جاندار ، درختوں اور زراعت کے لئے پانی بہت ضروری ہے ، اس کے بر عکس پانی کی زیادتی جنگلی حیات اور دیگر حیاتیاتی نئے پن پر تباہ کن اثرات مرتب کر دیتا ہے ، دریائوں میں طغیانی اور مسلسل بارشوں کی وجہ سے فصلوں ، شاہراہوں ، اور شہری نظام کو درہم برہم کر نے کے واقعات معمول بن گئے ہیں ، 1980ء اور 2022 ء کے درمیان یورپی یونین میں آب و ہوا سے متعلق ریکارڈ کئے گئے تمام واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں سیلاب سے زبردست معاشی نقصان ہوتا ہے۔
پنجاب کی موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں قابل ستائش اقدام اٹھایا ہے ،وزیر اعلیٰ مریم نواز نے جامع فلڈنگ پلان طلب کرتے ہوئے اربن فلڈنگ کو روکنے کے لئے مشینری خریدنے کی اصولی منظوری دی ہے ، نیز سڑکوں سے بارش کے پانی کا نکاس یقینی بنانے کے لئے سبز پٹی ( گرین بیلٹ ) کی سطح کو موجودہ سطح سے نیچے کرنے کے منصوبے کی بھی منظوری دی ہے، اربن فلڈنگ کی زد میں آنے والے شہروں میں زائد پانی کو محفوظ کرنے کے لئے سٹوریج ٹینک بنانے کی تجویز سے اتفاق بھی کیا گیا ، انتہائی حساس اور توجہ طلب ایسے مقامات جہاں پانی کی وجہ سے آمدو رفت کے رکنے سے ملک کو معاشی نقصان ہوتا ہے جن میں موٹرویز، ہائی ویز اور ریلوے ٹریک کے نیچے سیلابی راستوں کی صفائی ، سیلابی نالوں کی بر وقت صفائی اور بحالی یقینی بنانے کی ہدایت بھی دیں۔
جب کہ سیلاب کے مستقل سد باب کے لئے ضروری ہے کہ ڈیم ، ڈیکس اور لیویز جیسے ڈھانچے بارش اور برف پگھلنے سے سیلاب کی روک تھام کے لئے موثر اور ضروری بنیادی ڈھانچے تعمیر کرنے چاہئیں، لہٰذا ان کی طرف توجہ دی جائے ، اور ڈیموں کی بہتر دیکھ بھال کی جائے، اربن فلڈنگ کو روکنے کے لئے مشینری خریدنے سے بہتر ہے ، مشینری کے ا خراجات اور اس کے سپیئر پارٹس کے علاوہ ماہانہ کی بنیاد پر دیکھ بھال برقرار رکھنے کے اخراجات صرف کر کے مطلوبہ نتائج حا صل نہیں ہوں گے ، لہٰذا دریائوں میں مختلف مقامات پر ڈیم کی طرز پر ایک وسیع رقبے پرسٹوریج بنا کر ریگولیٹر لگانے سے سیلابی پانی کو کنٹرول بھی کیا جا سکتا ہے اور بوقت ضرورت کاشتکاری کے لئے استعمال میں بھی لایا جا سکتا ہے ، اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ سٹوریج ٹینک کے لئے زمین حاصل کرنے کے خرچے کو بچایا جاسکتا ہے، کیونکہ دریائوں میں وسیع پیمانے پر جہاں چاہیں زمین کو بغیر کسی اضافی خرچے کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کا زائد پانی کو جمع کرنے کے لئے سٹوریج ٹینک بنانے کے منصوبے کی کوئی تفصیل تو سامنے نہیں آئی اگر یہ سٹوریج ٹینک دریائوں پر ہی بنائے جائیں تو بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں ، جس سے طوفانی پانی کے بہنے اور سیلاب کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے ، اسی طرح فلڈ پلین زوننگ سے ان علاقوں میں زمین کے استعمال کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے جو سیلاب کی زد میں رہتے ہیں ، سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرنے سے زیر زمین پانی کی سطح بڑھ جاتی ہے جس کے لئے سیلاب مفید ہوتا ہے ، خشک سالی میں سیلابی پانی پینے اور کاشتکاری میں مدد گار ہو سکتا ہے۔
حکومت اس بات کو مد نظر رکھے کہ عالمی درجہ حرارت مسلسل بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے دنیا کے بہت سے حصوں میں بھار ی بارشیں ہوتی رہتی ہیں ، پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے ، پڑوسی ملک بھارت بھی پاکستان کی طرح شدید سیلابوں کی زد میں رہتا ہے ، موجودہ دور میں سیلاب زیادہ تباہ کن ہوتے جا رہے ہیں اور ان کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے ، بارشوں کی اورموسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب کے اثرات سرعت اختیار کرتے جا رہے ہیں ، اور اس کے اثرات حیاتیاتی تنوع پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں ، سیلاب کے سب سے واضح اثرات میں کچھ انواع تیزی سے بہتے ہوئے پانی سے جنم لیتے ہیں ، جس میں خصوصاً گھریلو اور جنگلی جانوروں کی نسل کشی ہے۔
پاکستان میں 2010 ء میں تباہ کن سیلاب آیا تھا جس کی وجہ سے ملک بھر میں بھاری جانی و مالی نقصان کے علاوہ فصلوں کی تباہی سے ملکی معیشت پر بھی گہرا اثر پڑا تھا ، لیکن پاکستان کی حکومتوں نے سیلاب کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لئے نہ ہی کوئی مربوط لائحہ عمل ترتیب دیا اور نہ کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے ، پنجاب حکومت کی سیلاب سے متعلق حکمت عملی قابل ستائش ہے ، بشرطیکہ اس کے لئے ہنر مند افرادی قوت اور تکنیکی ماہرین کا ایک مستقل ادارہ قائم کیا جائے جو کہ سیلاب کے دنوں میں متحرک بھی ہوں اور سٹوریج ٹینک جیسے منصوبوں کی نگرانی بھی کریں۔