کسی بھی ملک میں دیگر بہت سے امور کے علاوہ صحت اور تعلیم کی ذمہ داری بنیادی طور پر حکومت نے اٹھانا ہوتی ہے۔ تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک میں صحت اور تعلیم کا ایک قابلِ اعتماد سرکاری نظام موجود ہے جو ان ملکوں کے باسیوں کو اس بات کو یقین دلاتا ہے کہ حکومت ان سے محصولات کی مد سے میں جو رقم لیتی ہے وہ انھی پر خرچ کی جارہی ہے۔ کئی ممالک میں تو یہ نظام اتنا اچھا ہے کہ ہمارے ہاں کے بہتر سے بہتر نجی ادارے بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ صحت اور تعلیم کے اسی نظام کی مدد سے حکومتیں عوام کے دلوں میں اپنے لیے جگہ بناتی ہیں اور انتخابات کے مواقع پر ایسی ہی سہولیات کو مزید بہتر بنانے کے عزم کو اپنے منشور میں شامل کر کے عوام کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ کوئی جماعت حکومت میں آ کر ان کے کیا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ، اور انھی مختلف جماعتوں کے منشور سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سی جماعت ان کے لیے بہتر ثابت ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں بھی صحت اور تعلیم کا ایک سرکاری نظام موجود تو ہے لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ اس پر عوام کو اعتماد نہیں ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نظام میں بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بیوروکریسی عوام کے لیے کیے جانے والے بہت سے کاموں کے سلسلے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ بیوروکریسی نے خودتو عوام کے پاس جانا نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی برے حوالے سے اس کا کہیں ذکر ہوتا ہے، لہٰذا اس کی طرف سے کی جانے والی منفی حرکتیں بھی سیاست دانوں کے کھاتے میں ہی پڑتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیوروکریسی اپنے مفادات پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا نہیں کرتی اور سرکار کی طرف سے اسے جو سہولیات ملتی ہیں وہ اس معیار کی ہوتی ہیں کہ ان کا موازنہ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں حاصل ہونے والی معیاری ترین سہولیات کے ساتھ کیا جاسکتا ہے لیکن جب عوام کے لیے کچھ کرنے کی باری آتی ہے تو خزانہ خالی ہونے سے لے کر دائرۂ کار کے محدود ہونے تک ایسے ایسے دلائل پیش کیے جاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ!
اس سب کے باوجود ہر دور میں سیاسی جماعتوں کی عوامی حکومتیں کچھ نہ کچھ منصوبے سامنے لاتی رہتی ہیں جن کے ذریعے عوام کے لیے سہولت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے یہ منصوبے ہمارے ملک کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے سارے مسائل تو حل نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ ہر گاؤں اور قصبے تک پہنچ رہے ہیں لیکن پھر بھی ان کی مدد سے آبادی کے قابلِ ذکر حصے کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سیاسی جماعتیں اپنے انتظامی ڈھانچوں کو مضبوط بنائیں اور بلدیاتی نظام کے ذریعے عوام کے مسائل حل ان کی دہلیز پر حل کرنے کی کوشش کریں۔ مستحکم بلدیاتی نظام سے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو فائدہ پہنچے گا اور بیوروکریسی کی معاملات میں مداخلت کم سے کم ہوگی جس سے مجموعی طور پر ریاست اور معاشرے دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان کے ایک خوشحال ملک بننے کا خواب اسی صورت میں شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے جب حکومت صحت اور تعلیم کی ذمہ داری خود اٹھائے اور عوام کو اس بات کا اعتماد دے کہ ان کے محصولات سے جمع شدہ رقم انھی کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جارہی ہے۔
عوامی فلاح و بہبود کے لیے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں جہاں حکومت نے کئی سرکاری تعلیمی ادارے بنائے ہوئے ہیں وہیں صحت کے کچھ مراکز بھی مثالی خدمات فراہم کررہے ہیں۔ انھی مراکز میں جیل روڈ پر دو سرکاری لیبارٹریاں بھی شامل ہیں جن میں ایک پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) کی اور دوسری سروسز ہسپتال (سِمز) کی۔ ان دونوں لیبارٹریوں میں چند ایک کے سوا تقریباً تمام ٹیسٹوں کی سہولت موجود ہے اور نجی لیبارٹریوں کے مقابلے میں ان کے نرخ اتنے کم ہیں کہ سخت حیرت ہوتی ہے، مثال کے طور پر ایک ٹیسٹ جو کسی نجی لیبارٹری میں پانچ ہزار روپے کا ہے وہ ان لیبارٹریوں میں پانچ سو روپے میں ہو جاتا ہے۔ ٹیسٹوں کے نتائج آنلائن بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ان لیبارٹریوں کے قیام کے بعد اب اگلا مسئلہ نجی لیبارٹریوں اور ڈاکٹروں کی ملی بھگت کا ہے کہ فلاں فلاں لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائیں گے تو ہی اس کے نتائج قابلِ قبول ہوں گے۔ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ جن آلات اور مشینوں کے ذریعے مذکورہ سرکاری لیبارٹریوں میں ٹیسٹ ہوتے ہیں اور جو ماہرین اس سلسلے میں خدمات انجام دیتے ہیں ان کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرے جو ان لیبارٹریوں میں موجود سکرینوں پر بھی مسلسل چلتی رہے اور اسے سوشل میڈیا پر بھی نشر کیا جائے تاکہ عوام کو اس حوالے سے مکمل آگاہی دی جائے۔ ساتھ ہی واضح طور پر عوام کو یہ پیغام بھی دیا جائے کہ اگر کوئی ڈاکٹر ان لیبارٹریوں کے نتائج قبول نہیں کرتا تو وہ تحریری طور پر وجوہ سے آگاہ کرے ورنہ اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سرکاری لیبارٹریوں کو صرف دو ہسپتالوں اور لاہور تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ ہر تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال (ٹی ایچ کیو) میں ایک لیبارٹری قائم کی جائے جو تمام بنیادی نوعیت کے ٹیسٹ کرے۔ حساس نوعیت کے ٹیسٹوں کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتالوں (ڈی ایچ کیوز) کو مرکز قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کام کے لیے ٹی ایچ کیوز کو کلیکشن سنٹرز کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ مزید یہ کہ ان لیبارٹریوں کو ایک مربوط نظام سے جوڑنے اور ان کی مسلسل نگرانی کے لیے ایک الگ محکمہ بھی قائم کیا جاسکتا ہے اور محکمہ صحت کے اندر ایک ذیلی شعبہ بھی بنایا جاسکتا ہے جس کے تمام امور پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ عوام کو ان لیبارٹریوں کے ذریعے ملنے والی سہولیات پر کوئی سمجھوتا نہ ہو۔ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت ایسا نظام بنانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ اس کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا اور عوام کی نظر میں اس سیاسی جماعت کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی۔ اس ایک منصوبے کے ذریعے ہی کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کی اکثریت کو اپنے حق میں کرسکتی ہے کیونکہ لیبارٹریاں صرف چند افراد نہیں بلکہ اس صوبے میں بسنے والے بارہ کروڑ سے زائد عوام کی ضرورت ہیں۔