جمعرات،9جمادی الثانی 1446ھ 12دسمبر 2024

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی میں موٹر سائیکل سوار سب سے آگے 
یہی پاکستانی جو اپنے ملک میں ٹریفک قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ جب یورپ اور عرب ممالک میں برتن دھونے ، راج گیری یا چوکیداری کرنے سے لے کر اعلیٰ ملازمت کرنے جاتے ہیں۔ انہی قوانین کو سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ کیونکہ جانتے ہیں کہ وہاں قانون موم کی ناک نہیں کہ دھونس سے ، سفارش سے، رشوت سے اسے جہاں چاہیں موڑ لیں۔ دنیا بھر میں ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل ہوتا ہے ایسا نہ کرنے پر معافی کسی صورت نہیں ملتی۔ لائسنس ضبط ، گاڑی ضبط اور پھر ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ وہاں نشئی ، ناتجربہ کار، کم عمر ڈرائیونگ یا لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ کا تصور ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں یہ علت عام ہے۔ کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ والدین تک جو حادثے کے بعد خون کے آنسو بہا تے ہیں۔ اپنے کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل یا گاڑی دیتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ حادثے کے بعد رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لینے سے بہتر ہے کہ وہ ایسا نہ کرتے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسے والدین پر بھی معاونت قتل کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ آج کل موٹر سائیکل نے بائسیکل کی جگہ لے لی ہے۔ یہ ایک خطرناک سواری بھی بن سکتی ہے۔ اگر قوانین پر عمل نہ کیا جائے۔ اکثر و بیشتر نوعمر لڑکے اس کو ہوائی جہاز سمجھ کر اڑتے ہیں انکے ساتھ بیھٹے بڑے بھی ان کو منع نہیں کرتے الٹا ہلہ شیری دیتے ہیں۔ یہ ٹریفک قوانین کی پرواہ کرتے ہیں نہ سگنلز کی نہ ہی اپنی لائن کی۔ معروف سڑکوں پر یوں کرتب دکھاتے ہیں گویا وہ موت کے کنواں میں کام کر رہے ہیں۔ ون ویلنگ اور ریس لگانے کی وجہ اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ کئی نوجوان جان سے جاتے ہیں اکثر معذور ہو جاتے ہیں۔ اب والدین اور ٹریفک پولیس مل کر اس کا حل نکالے اور کسی کے ساتھ رعایت نہ بھرتی جائے۔سخت قانون ہی ان کی راہ روک سکتا ہے۔ ورنہ نوجوان شوخیاں مارنے سے کب باز آتے ہیں۔ 
اڈیالہ جیل میں قیدی، ان کے خاندان اور پارٹی رہنمائوں کیدرمیان، تکرار
لگتا ہے سول نافرمانی کی تحریک کا معاملہ پی ٹی آئی والوں کے لیے بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ، والا قصہ بن گیا ہے۔ اسلام آباد پر دو مرتبہ چڑھائی میں ناکامی کے بعد کارکنوں کو تو چھوڑیں پارٹی رہنمائوں کا بھی مورال ڈائون ہو گیا ہے۔ اسی طرح پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے کپتان کو بتایا گیا تھا لاکھوں کا سیلاب آئے گا مگر خیبر پی کے میں ہلکی بوندا باندی کے سوا کہیں بادل نہ برسے۔ یوں
 وہ ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا 
یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ
  والی حالت رہی۔اب اس آگ کی تپش سے قیدی اور اس کے خاندان والے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ان کے گلے شکوے میڈیا تک پہنچ رہے ہیں۔ یہ لوگ تو ہر صورت تخت یا تختہ کرنے قیدی کو چھڑانے پر تلے ہیں۔ مگر پارٹی رہنمائوں کی اکثریت اس وقت سول نافرمانی تحریک کے حق میں نہیں ہے۔ انہیں خطرہ ہے یہ ناکام ہوئی تو پارٹی کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ خود خیبر پی کے میں بھی پوری طرح یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ 
اب تو سارے پارٹی رہنما مذاکرات کرنے پر بھی تیار نظر آتے ہیں۔ 
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی 
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی 
دیکھ لیں ضد اور انا کی وجہ سے حالات کہاں تک پہنچ گئے ہیں۔ قیدی کوشاید ابھی تک اس صورتحال کا احساس نہیں ہوا ہے یا وہ واقعی ان حالات سے لاعلم ہیں۔ یہ تو گھر والوں اور پارٹی والوں کو چاہیے کہ انہیں تمام صورتحال اور ان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش پر کیا ردعمل سامنے آیا ہے اس سے آگاہ کیا جائے ورنہ اختلافات کی خلیج مزید گہری ہو سکتی ہے۔ علی امین گنڈا پور، بیرسٹر گوہر، علیمہ خان اور بشریٰ بی بی کے علاوہ قیدی کے وکلا بھی بھانت بھانت کی بولیاں بول کرنجانے کیوں حالات کو بگاڑ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ 
بچی کی اپیل پر وزیر اعلیٰ بلوچستان کا اوچ میں گرلز سکول بنانے کا حکم 
اس پر تو کہا جا سکتا ہے ناں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کا یہ اقدام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ اس طرح اگر سرفراز بگٹی دیگر دور دراز علاقوں میں موجود ان سینکڑوں سکولوں ک حالت زار پر بھی توجہ دیں جو تخریب کاروں نے تباہ کردئے ہیں یا وہاں اساتذہ سمیت کوئی سہولت موجود نہیں تو لاکھوں بچوں اور بچیوں کو ایسی پْردرد اپیل کرنے کی نوبت ہی نہ آئے گی جو اوچ کی اس بچی نے ویڈیو پیغام میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کے نام کرتے ہوئے اپنے علاقہ میں لڑکیوں کے لیے سکول بنانے کی درخواست میں کی ہے۔ تعلیمی میدان میں بلوچستان کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ انگریزی، حساب، فزکس ، کیمسٹری، بیالوجی، جغرافیہ کو تو گولی ماریں، صرف اردو اور اسلامیات پڑھانے والے ٹیچروں کا ہی آزمائشی امتحان نہایت ایمانداری سے بے شک کسی دوسرے ملک کے ماہرین کی زیر نگرانی لیا جائے تو اس کا نتیجہ ہمارے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہو گا۔ خواہ پرائمری ہو مڈل ہو یا ہائی کلاسز ہر جگہ یہی حال ہے تحریری چلو مشکل ہے تو زبانی ہی لے کر دیکھیں۔ کیا ہو گا۔ 
اس تعلیمی تباہی کے ذمہ دار وہ افسر اور وزیر ہیں جنہوں نے سفارش اور نالائق افراد کو کہیں اور جگہ نہیں ملی تو محکمہ تعلیم میں بھرتی کروا کے اس شعبہ کا بیڑہ غرق کر دیا۔ خدارا اپنے مستقبل کے ساتھ کھیلنے سے پرہیز کیا جائے۔ یہ بچے اور بچیاں ہمارا مستقبل ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت کے لیے اچھے قابل اور لائق اساتذہ رکھ کر ہی ہم صوبے کو پسماندگی سے نکال کر علم کی روشنی سے منور کر سکیں گے۔ ورنہ رونے دھونے کا کیا فائدہ، نمائشی نہیں عملی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ 
ہیٹی کی کچی آبادی میں کالے جادو کے الزام میں 184 افراد قتل
ہمارے ہاں اگر سفلی علوم یعنی کالا جادو کرنے والوں کے خلاف لوگ ایسا ہی قاتلانہ ایکشن لیں تو یقین کریں کیا کچی آبادی کیا پکی آبادی کیا متوسط علاقے اور کیا پوش علاقے ہر جگہ اس سے بھی زیادہ قتل عام ہو۔ یہ بیماری ہمارے ہاں ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ خواندہ، نیم خواندہ یا اعلیٰ تعلیم یافتہ سب توہمات کے مارے اس کا شکار ہیں۔ جو جاہل فراڈی عامل اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے سے قاصر ہے۔ اپنی بیماریوں کے لیے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جو خود تنگ دستی کے مارے ہوتے ہیں۔ لوگوں سے پیسے بٹور کر مزے اڑاتے ہیں۔ وہ اگر اتنے پہنچے ہوئے ہوتے تو خزانہ غیب سے لوگوں کی مدد کرتے نہ کہ ان سے پیسے وصول کر کے نذر و نیاز صدقات و زکواۃ اور عطیات کی خیرات سے اپنی تجوریاں بھرتے۔ یہ سب ڈھونگی عامل بنے ہیں غلط چیزیں بیان کر کے لوگوں کا ایمان خراب کرتے ہیں۔ خود تو یہ مسلمان رہے ہی نہیں۔ کالے علم سے ایمان چھن جاتا ہے۔ ایسے لوگ شرعاً سخت سزا سچ کہیں تو موت کے حقدار ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہزاروں گھروں میں نااتفاقی اور جھگڑے جنم لیتے ہیں۔ اچھے بھلے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ لوگ کالے علم ، جنتر منتر،جادو ٹونا کرنے کے علاوہ سادہ لوچ افراد کی عزتوں کے بھی لٹیرے نکلتے ہیں۔ بقول جوش ’’جاری ریا کے کارخانے دیکھو ‘‘ ہمارے ملک میں تو گلی گلی محلے محلے میں یہ لوگ ڈیرے جمائے بیٹھے ہیں۔ آستانے کینام پر ریا کے کار خانے چلا رہے ہیں۔ نماز، روزہ کا انہیں پتہ نہیں ہوتا۔ کلمہ پڑھ نہیں سکتے اور پہنچے ہوئے عامل بنے ہوتے ہیں۔ پولیس اس قسم کے ہر ٹھکانے سے واقف ہوتی ہے مگر شاید وہ
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے 
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
 وجہ سے یا جادو ٹونے کے خوف سے کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ اور یہ غلط کاری کے اڈے چلتے رہتے ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس اب ہیٹی کے لوگوں سے ہی سبق حاصل کرے اور بے خوف ہو کر ان درندوں کا شکار کرے ورنہ توہمات کے مارے عوام کا شعور تو بیدار ہونے سے رہا۔ 

ای پیپر دی نیشن